Islamiat.PK

داتا علی ہجویری المعروف داتا گنج بخشؒ کی مکمل سوانح حیات بمع حوالہ جات

داتا علی ہجویری - Data Ali Hajveri - Data Ganj Baksh - Data Sab

حضرت داتاعلی ہجویری المعروف داتا گنج بخش رحمتہ اللہ علیہ

قدوۃ السالکین، زبدۃ العارفین، سند الواصلین، مرکز تجلیات، منبع فیوض و برکات، الشیخ السید علی بن عثمان الہجویری المعروف بہ حضرت داتا گنج بخش  داتاعلی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کا وجود سعید خطہ پنجاب کے لیے مرکز مہر و فا اور سرچشمہ تمنا و دعا ہے۔ آپ کی حیات ظاہری بھی اس خطے کے لوگوں کے لیے سراپاء رحمت و راحت تھی اور آپ کے باطنی و روحانی فیوض و برکات آج بھی اس سرزمین کے لیے محبت، ہمدردی اور خیر خواہی کا ذریعہ ہیں۔ بلاشبہ پنجاب کی دینی ثقافت سے حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کی محبت کو جدا کرنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ یہ یقیناً حضرت داتا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی کرم گستریوں ہی کا فیضان ہے کہ لاہور برصغیر کے لیے قطب الارشاد یعنی راہنمائی کا محور و مرکز، قطب البلاد اور مدینۃ الاولیاء ٹھہرا اور اپنی اسی روحانی مرکزیت کے سبب ہمیشہ مرجع خلائق رہا ہے۔

آفتاب آسمان معرفت، سیاح بادیۂ طریقت، سباح بحر حقیت، سباق میدان شریعت، سندالاتقیاء، سید الاولیاء، عمدۃ الاصفیاء حضور داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ نےتقریباً ایک ہزار برس قبل ہند کی سرزمین میں حرف حق کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت، حضور نبی کریمﷺ کی رسالت اور اسلام کی حقانیت کا جو بیج بویا، وہ اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت سے ایک ایسا تناور درخت بن گیا جس کی جڑیں اس سرزمین میں نہایت مضبوط ہوگئیں اور شاخیں وسیع فضاؤں میں پھیل گئیں۔ شاعر مشرق مفکر پاکستان علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ بھی اسی شجر طیبہ کا حیات بخش ثمر تھے جنہوں نے کلمہ طیبہ کی بنیاد پر اس خطہ ارضی کے حصول کا راستہ مسلمانان ہند کو دکھایا۔  برصغیر میں قافلہ شریعت و طریقت اور حکمت و معرفت کے سرخیل حضور داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کی ذات گرامی یقیناً ان برگزیدہ ہستیوں میں نہایت نمایاں اور معتبر ہے، جنہوں نے برصغیر کو اسلام کے نور سے منور کیا۔ ظلم و جہالت اور شرک و معصیت کی تاریکیوں میں محبت، علم، رشد و ہدایت، نیکی، تقویٰ اور ایثار و بھائی چارے کی شمع فروزاں کی۔ آپ کے اخلاق و کردار اور افعال و اقوال نے اسلام کی عملی تعبیر لوگوں کے سامنے پیش کی، جس کے سبب اس خطے کے لوگ جوق درجوق حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔ حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کے طرز زیست اور اسلوب حیات سے روشنی حاصل کرنے والوں نے ، دین کی اشاعت اور ترویج کے لیے اسلامی اور فلاحی مراکز قائم کیے اور اپنی زندگیوں کو اسلام کی تبلیغ کے لیے وقف کردیا، جس کی روشنی رہتی دنیا تک لوگوں کو راہنمائی عطا کرتی رہے گی۔

داتا علی ہجویری - Data Ali Hajveri - Data Ganj Baksh - Data Sab
داتا علی ہجویری – Data Ali Hajveri – Data Ganj Baksh – Data Sab

 

یہ بھی پڑھیں: خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ کی سوانح حیات (مع حوالہ جات)

خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کی کرامات

خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ کے حالات و واقعات اور کرامات

حضرت شاہ عنایت قادری شطاریؒ کی حیات و تعلیمات

حاجی محمد نوشہ گنج بخش قادری نوشاہیؒ کی حیات و کرامات

سلطان العارفین حضرت سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ

حضرت میاں میر قادریؒ کی حیات و تعلیمات

حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ۔۔۔

 

داتا صاحبؒ کے حالات زندگی؛

 حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری رحمتہ اللہ علیہ بر صغیر پاک وہند کے اولین مبلغین میں سے ہیں اور آپ  کا  مزار گوہر بار آپ کے فیضان کی وجہ سے عرصہ تقریباً ایک ہزار سال سے مرجع خواص و عام چلا آرہا ہے  اورآپ کی معرکۃ الآراء تصنیف کشف المحبوب اطراف و اکناف عالم میں شہرت رکھتی ہے ۔ روایات میں ہے کہ جس زمانے میں حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ  نے لاہور میں شمع ہدایت روشن کی،  اس  وقت یہاں مسلمانوں کے نئے نئے قدم جمے تھے اور ان کو پورے طور  پر سیاسی استحکام حاصل نہیں ہوا تھا ۔ ان حالات میں جن مؤرخین نے تاریخ نویسی کا آغاز کیا انہوں نے تا ریخ کو اپنے آقایان نعمت یعنی فا تحین کے  گرد گھمانا شروع کر دیا اور بعد کے مورخین نے صرف ان بزرگوں کے مختصر حالات لکھے جن کے آستانوں پر ان مؤرخین کو شرف حاضری نصیب ہوا  اورجن حضرات نے بادشاہوں سے ہٹ کر صرف ان نفوس قدسیہ، جن کی حکومت  لوگوں کے دلوں پر تھی کے حالات زندگی اور ان کی  اسلامی و روحانی خدمات جلیلہ کی تفصیلات کو قلم بند کیا ان کی تالیفات کو اس خطے کی ازلی بد نصیبی (بہ سلسلہ اتلاف کتب ) نے محفوظ نہیں رہنے دیا، اس وجہ سے حضور داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کے ابتدائی حالات زندگی کے حوالے سے معتبر راوایات نہیں ملتیں۔

جہانگیری عہد کے مشہور تذکرہ نگار محمد غوثی بن حسن شطاری، حضرت داتا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے  حوالے سے لکھتے ہیں کہ تواریخ مشائخ کے سابقہ مصنفین کا خیال ہے کہ” کشف المحجوب کے مصنف ، وہ بزرگ ہیں، جن کا مزار مبارک لاہور میں ہے”۔ (اذکار ابرار، ترجمہ گلزار ابرار، تالیف محمد غوثی، طبع آگرہ، 1336 ہجری، ص 25)۔

اسی طرح”  تذکرۃ الاولیا ء” از شیخ فرید الدین عطار  رحمۃ اللہ علیہ  میں صرف دو جگہ حضرت داتا صاحب رحمۃ اللہ علیہ  کا اسم گرامی درج ہے ۔ محبوب الٰہی خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ  کی ملفوظات “فوائد الفواد “اور “درر نظامی” میں بھی حضور داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ  کا ذکر خیر ہوا ہے۔ پھر مولانا جامی  رحمۃ اللہ علیہ نے” نفحات الانس” میں،  شیخ احمد زنجانیؒ نے” تحفتہ الواصلین” ( غیر موجود ) میں،  ابو الفضلؒ  نے” آئین اکبری” میں،  عبدالصمد بن افضل محمد نے” اخبار الاصفیاء” (خطی، 4) میں،  لعل بیگ لعلی نے “ثمرات القدس “(خطی ) میں،   مولانا محمد غوثی نے” گلزار ابرار “میں ،  شہزادہ  دارا شکوہ نے “سفینۃ الاولیاء “میں،  مولانا محمد بقا اور بختاور خاں نے “ریاض الاولیاء “میں،  ذکرخیر کیا ہے اور  حضرت داتا صاحب رحمۃ اللہ علیہ  کے حالات کے یہی قدیم ماخذ ہیں ۔

 متاخرین میں سے لالہ گنیش داس وڈیرہ نے” چار باغ پنجاب “میں ، مفتی غلام سرور لاہوری نے “خزینۃ الاصفیاء” اور “حدیقۃ الاولیاء “میں،  مولوی نو ر احمد چشتی نے” تحقیقات چشتی “میں حالات  داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ لکھے ہیں اور ان کے بعد  کے مؤلفین نے ان ہی کی کتابوں سے استفادہ کیا ہے ۔ ان سب تذکروں اور تاریخوں کے مندرجات کے پڑھنے سے مستند اور قابل اعتماد  تاریخی مواد بہت کم ملتا ہے،  حتی کہ صحیح سن پیدائش اورتا ریخ وصال میں بھی اختلاف ہے اور حضور داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ  کے ورود لاہور کا مسٔلہ بھی خاصا پریشان کن ہے،  غرض  یہ کہ حضرت داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کے مستند حالات زندگی اسی قدرہی ملتے ہیں،  جتنےخود  انہوں نے کشف المحجوب میں بیان  فرمائے ہیں ۔

 

داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کا نام و نسب ؛

حضور داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کا اسم گرامی علی، والدمحترم کا نام عثمان، کنیت ابوالحسن اور لقب داتا صاحب اور  داتا گنج بخش معروف ہے۔ آپ ہاشمی سید ہیں اور آپ کا سلسلہ نسب  آٹھویں پشت میں سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم سے جاملتا ہے۔

مفتی غلام سرور نے بحوالہ تاریخ متقدمین میں داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کا شجرہ نسب یوں طرح لکھا ہے ؛

 حضرت مخدوم علی ، بن عثمان ، بن سید علی ، بن عبدالرحمٰن ، بن شاہ شجاع ، بن ابو الحسن علی ، بن حسین اصغر ، بن سید زید شہید ، بن حضرت اما  م حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم۔(خزینۃ الاصفیاء، جلد دوم، ص 233)۔

 مشہور ماہر علم انساب پیر غلام  دستگیر نامی (مدفون1381ھ) نے یہی شجرہ نسب” تاریخ جلیلہ” اور “بزرگان  لاہور”  میں درج کیا  ہے ، مگر پانچویں بزرگ کا نام عبداللہ اور قوسین میں شجاع شاہ تحریر ہے اور ساتھ میں درج  ذیل نوٹ دیا ہے  کہ؛

مفتی غلام سرور نے زید کے ساتھ جو لفظ شہید لکھا ہے وہ ٹھیک نہیں، کیونکہ جو سیدنا زید شہید علیہ السلام معروف ہیں وہ سیدنا امام علی زین العابدین علیہ السلام بن سیدنا امام حسین علیہ السلام کے فرزند تھے۔ (تاریخ جلیلہ، طبع دوم، ص 204 / بزرگان لاہور، ص 184)۔

آریانا دائرۃ المعارف میں حضرت داتا صاحب رحمۃ اللہ علیہ  پر جو مختصر اور تحقیقی مقالہ درج ہے اس میں لکھا ہے  کہ مولوی غلام سرور لاہوری  نے “خزینۃ الاصفیاء  “میں داتا حضورؒ کے حالات کی تفصیل میں آپ کی خاندانی سیادت و بزرگی کا ذکر کیا ہے مگر کسی ماخذ کا ذکر نہیں کیا،  ما سواء یہ کہنے کے کہ قدیم تاریخی کتب میں آپ کا نسب ایسا ہی بیان کیا گیا ہے۔ بہر حال آپ کے نسب کے بیان کرنے میں جو قابل اعتماد مواد ہے اور مولانا جامی رحمۃ اللہ علیہ  اور دار اشکوہ رحمۃ اللہ علیہ  نے بھی جس کو قابل اعتماد جانا ہے،  وہ وہی مختصر ذکر ہے جس کو خود داتا حضور رحمۃ اللہ علیہ نے کشف المحجوب میں خود بیان فر مایا ہے ۔ اس میں آپ کی سیادت کا صراحتاً یا کنایتاً کسی قسم کا اشارہ نہیں ہے،  فقط اتنی بات ملتی ہے کہ غزنی میں اس خانوادہ کے لوگ اپنے آپ کو حضرت شیخ سے منسوب کرتے ہیں اور خود کو ان کی اولاد بتلاتے ہیں اور اپنے آپ کو سید شمار کرتے ہیں ۔(آریانہ دائرۃ المعارف، جلد1، طبع کابل، ص 947)۔

شہزادہ دارا شکوہ رحمۃ اللہ علیہ  سے تقریباً دو سو سال پہلے وفات پانے والے سید محمد نور بخشؒ جو ماہر انساب بھی تھے،  نے اپنی کتاب “سلسلۃ الذہب مشجر الاولیاء “میں حضرت داتا صاحب  رحمۃ اللہ علیہ کو سید لکھا  ہے۔(سلسلۃ الذہب مشجر الاولیاء، حصہ دوم، ص 22)۔

 

داتا گنج بخشؒ کے القابات؛

داتا حضورؒ کا اسم گرامی خود آپ کی تحریر کے مطابق علی بن عثمان جلابی یا علی بن عثمان بن علی الجلابی الغزنوی ہے۔ آپ غزنیں (غزنی) کے قریبہائے جلاب و ہجویر کے رہنے والے تھے اور اسی مناسبت سے کبھی آپ  خود کو جلابی اور کبھی ہجویری تحریر فرماتے ہیں۔ داتا صاحبؒ نے کشف المحجوب میں متعدد جگہ اپنا اسم گرامی تحریر فرمایا ہے اور اس کی توجیہہ بھی فرمائی ہے۔ آپ برصغیر پاک و ہند میں سید ہجویر علی بن عثمان رحمۃ اللہ علیہ داتا صاحب اور  داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کے القابات سے مشہور و معروف ہیں۔ گنج بخش کا لقب حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ نے مزار فائز الانوار پر چلہ کشی کے بعد بوقت رخصت ایک الوداعی منقبت میں پیش کیا تھا۔ (کشف المحجوب، اردو ترجمہ از مفتی سید غلام معین الدین نعیمی، ص18)۔

 

داتا حضورؒ کا مولد وموطن ؛

حضرت داتا صاحب رحمۃ اللہ علیہ  افغانستان کے شہر غزنی کے رہنے والے تھے،  جیسا کہ آپ خود فر ماتے ہیں  کہ؛

علی بن عثمان بن علی الجلابی الغزنوی ثم الہجویری

شہزادہ دارہ شکوہ لکھتے ہیں کہ حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ غزنی کے رہنے والے تھے۔  جلاب اور ہجویر، غزنی کے محلوں میں سے دو محلے ہیں ۔  آپ پہلے جلاب میں قیام پذیر تھے،  پھر ہجویر میں منتقل ہو گئے تھے۔ آپ کے والد ماجد   سیدنا عثمان رحمۃ اللہ علیہ کی قبر  مبارک غزنی میں ہے   اورآپ  کی والدہ محترمہ کی مرقد بھی آپ  کے ماموں تاج الاولیاء کے مزار سے متصل ہے اورآپ کے خاندان کے تمام افراد صاحب زہد و تقویٰ تھے ۔(سفینۃ الاولیاء، (فارسی) از دارا شکوہ، طبع کانپور، 1900ء، بار دوم، ص 164)۔

اور میں (دارا شکوہ) حضور داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ  کے والدین اور ماموں کے مزارات کی زیارت سے مشرف ہو چکا ہوں ۔(سفینۃ الاولیاء، (فارسی) از دارا شکوہ، طبع کانپور، 1900ء، بار دوم، ص 165)۔

 

داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کاسال ولادت ؛

حضرت داتا صاحب رحمۃ اللہ علیہ  کا سال ولادت کسی قدیم کتاب میں درج نہیں  اور اس دور کے مؤلفین نے ظن  وتخمین سے کام لیا ہے، جیسا کہ  پروفیسر نکلسن کا خیال ہے  کہ حضور داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش دسویں صدی کے آخری عشرہ میں یا گیارھویں صدی کے ابتدائی عشرہ(یعنی 391یا 401 ہجری) میں ہوئی ہو گی ۔(کشف المحجوب، انگریزی ترجمہ از نکلسن، (ص 11،دیباچہ))۔

ڈاکٹر مولوی محمد شفیع لکھتے ہیں  کہ  اندازے سے کہا جاتا ہے کہ داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت باسعادت   پانچویں صدی ہجری کے شروع میں ہوئی ہوگی۔(مقالات دینی و علمی، ص 222)۔

ڈاکٹر معین الحق کی رائے یہ ہے کہ بعض لوگوں نےحضرت داتا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش کا سال 400ھ لکھا ہے ، لیکن اس کو یقینی نہیں کہا جاسکتا۔ (معاشرتی و علمی تاریخ، طبع کراچی، ص 21)۔

 مفتی محمد دین فوق رقم فر ماتے ہیں کہ  داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش کا فخر 400ھ یا 401ھ کو حاصل ہو تا ہے ۔ (داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ از محمد دین فوق، 1920ء، ص5)۔

سال ولادت کے باب میں مذکورۃ الصدر قیاس آرائیوں کی تائید “رسالہ ابدالیہ” سے بھی ہوتی ہے، جیسا کہ  رسالہ مذکورہ کے مؤلف نے لکھا ہے کہ حضرت داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ  وقتاً فوقتاً عظیم مسلمان فاتح سلطان محمود غزنوی رحمۃ اللہ علیہ کے در بار میں جاتے تھے اور داتا حضورؒ  نے نوعمری میں ایک ہندی فلسفی سے مناظرہ بھی کیا تھا۔(فہرست مخطوطات فارسیہ، انڈیا آفس لائبریری، مرتبہ ایتھے، (Ethe)، 1774ء / دیباچہ کشف المحجوب، انگریزی ترجمہ از نکلسن، ص 10)۔

نوٹ؛ نو عمری سے بیس اکیس سال عمر فرض کی جا سکتی ہے ۔معروف روایت کے مطابق سلطان محمود غزنویؒ نے 421ھ میں وفات پائی، لہٰذا “رسالہ ابدالیہ” کی روایات کی بناپر حضرت داتا گنج بخشؒ کا سال ولادت 400ھ کے لگ بھگ قرار دیا جا سکتا ہے ۔

 بقول لین پول ، سلطان محمود غزنوی رحمۃ اللہ علیہ 388ھ/988ء میں تخت نشین  سلطنت ہوئے اور یوں حضرت داتا صاحب ؒ ، سلطان محمود غزنویؒ  کے دور حکومت میں اس وقت پیدا ہوئے جب کہ سلطان پاک وہند پر متعدد بار حملہ آور ہوچکے تھے اور حضرت داتا صاحب ؒ ، غازی سلطان محمود غزنویؒ کے پاس (دربار میں) ان کی زندگی کے آخری برسوں میں آتے جاتے رہے ہوں گے ۔

 

 
داتا صاحبؒ کےاساتذہ اور شیوخ ؛

حضرت داتا صاحب  رحمۃ اللہ علیہ علوم ظاہری و باطنی کے بحر ذ خار تھے ۔آپ  کی یہ عظمت اس کی و اضح دلیل ہے کہ آپ  نے متعدد علماء و فضلا ء سے اکتساب علوم کیا ہو گا۔ جیسا کہ مولانا جامی رحمۃ اللہ علیہ نے “عارف و عالم بودہ”،   لعل بیگ نے  “در فنون علم ماہر بود “اور  مفتی غلام  سرور  نے “جامع بود میاں علوم ظاہر و باطن ” لکھنے پر اکتفا  کیا ہے ۔ مگر کشف المحجوب جہاں داتا صاحب ؒ کے مختصرحالات سے آگاہ کرتی ہے،  وہاں آپ کے ایک با قاعدہ استاد کے نام نامی کی نشاندہی بھی کرتی ہے ۔ حضرت داتا علی ہجویریؒ نے اپنے ایک استاد گرامی ابو العباس بن محمد شقانی رحمۃ اللہ علیہ  کا ذکرخیر  نہایت ادب و احترام سے کیا ہے ۔ آپ ؒ لکھتے ہیں  کہ ؛

مجھے ان سے بہت انس تھی اور آپ کی مجھ پر انتہائی خلوص بھری شفقتیں ہوتی تھیں اورآپ چند علوم میں میرے استاد تھے ۔(کشف المحجوب، طبع تہران، ص 210)۔

حضرت داتا صاحب قدس سرہ جوان عمری ہی میں علوم کی ظاہری کی تکمیل کر چکے تھے ۔ آپ کو فطرتاً  ولی اللہ ہونے کا مقام و مرتبہ حاصل تھا ، یعنی آپ بطن مادر ہی سے ولی کامل پیدا ہوئےتھے۔  صاحب “رسالہ ابدالیہ”  کا بیان ہے  کہ  حضرت شیخ علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ  نے سلطان محمود غزنویؒ (م 421ھ) کی موجودگی میں بمقام غزنی ایک ہندو فلسفی سے مناظرہ کیا اور اسے اپنی روحانی قوت سے ساکت و صامت کردیا۔ (دیباچہ کشف المحجوب، انگریزی ترجمہ از نکلسن، ص 10)۔

 

داتا گنج بخشؒ کے مرشدکریم  اور شجرہ طریقت؛

 حضرت داتا گنج بخش رحمتہ اللہ علیہ سلسلہ  جنیدیہ میں حضرت ابو الفضل محمد بن الحسن الختلی قدس سرہ (م 460ھ ) سے بیعت تھے۔  آپ کاشجرہ طریقت سلطان ولایت حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم تک اس طرح    منتہی ہو تا ہے ؛

 حضرت شیخ علی ہجویری مرید شیخ  ابو الفضل محمد بن حسن ختلی کے،  وہ مرید حضرت شیخ حصری کے،  وہ مرید حضرت شیخ ابو بکر شبلی کے ، وہ مرید حضرت جنید بغدادی کے،  وہ  مرید شیخ سری سقطی کے ، وہ مرید حضرت  معروف کرخی کے،  وہ مرید حضرت داؤد طائی کے ، وہ مرید حضرت حبیب عجمی کے ،وہ مرید حضرت حسن بصری کے اور وہ مرید  حضرت سیدنا علی المرتضٰی کے (رضی  اللہ تعالیٰ   عنہم )۔(کشف المحجوب، طبع از محکمہ اوقاف پنجاب، ص30)۔

 

داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کی بیعت وخلافت؛

داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی زندگی کا کچھ حصہ اپنے مرشد کریم حضرت ابوالفضل ختلی رحمۃ اللہ علیہ کی صحبت میں گزارا۔ داتا حضورؒ کے مرشد کریم شیخ ابوالفضل ختلیؒ باشرع صوفی اور پابند صوم و صلوٰۃ تھے۔ شیخ ابوالفصل ختلیؒ کی غذا نہایت سادہ اور کم تھی اور آپ بہت کم سوتے اور سارا وقت یاد الٰہی میں مصروف رہتے تھے۔  مرشد کریم کی خدمت گزاری اور صحبت سےداتا حضورؒکو معرفت نصیب ہوئی۔ حضرت داتا صاحب ؒ نے مرشد کریم کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے پابند شرع رہتے ہوئے بے پناہ عبادت و ریاضت کی۔ صحبت مرشد کریم اور یادالٰہی کا نتیجہ یہ ہوا کہ داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ  نے جلد ہی سلوک کی منازل طے کیں اور آپ ولی کامل بن گئے اور آپ کے شیخ کریم شیخ ابوالفضل ختلی رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کو خرقہ خلافت عطا فرمایا اور خدمت دین کی نصیحت فرمائی۔(تذکرۂ اولیائے لاہور از علامہ عالم فقری، ص 53)۔

 

داتا حضورؒ کی اپنے مرشد کریم سے محبت و عقیدت؛

حضرت داتا صاحب ؒ اپنے پیرو مرشد کے علمی مقام  و مرتبہ کے حوالے سے لکھتے ہیں  کہ صوفیاء متاخرین میں سے اوتاد کی زینت اور عابدوں کے شیخ ابو الفضل محمد بن الحسن الختلی ہیں۔  طریقت میں میری اقتداء (بیعت ) انہی سے ہوئی  اور آپ علم اور تفسیر و روایات (حدیث ) کے عالم تھے اور تصوف میں حضرت جنیدبغدادی رحمۃ اللہ علیہ  کا مذہب رکھتے تھے۔  حضرت حصری ؒ کے رازدار مرید تھے ، ابو عمر قزوینیؒ اور ابو الحسن سالبہؒ کے ہم عصر  تھے۔  صحیح گوشہ نشینی کے لیے ساٹھ سال تک تنہائی کی تلاش میں پھرتے رہے اور مخلوق  کے ذہنوں سے اپنا نام محو کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔  زیادہ تر جبل لکام(سلسلہ کوہ لبنان کا وہ حصہ جو انطاکیہ اور مصیصہ س متصل ہے)  میں قیام پذیر رہے۔  عمر طویل پائی،  اپنی ولایت کی بہت سی دلیلیں اور نشانیاں رکھتے تھے لیکن صوفیاء  کی رسوم ولباس کے پابند نہ تھے اور رسوم  میں جکڑے ہوئے صوفیوں سے درشتی سے پیش آتے تھے ۔ میں نے ان سے زیادہ کسی کو باہیبت نہیں دیکھا ۔(کشف المحجوب، طبع تہران، ص 208)۔

روایات میں ہے کہ  جس روز حضور داتا گنج بخشؒ کے پیر و مرشد حضرت ختلی رحمۃ اللہ علیہ  کا وصال  باکمال ہوا ،   حضرت داتا صاحبؒ ان کی خدمت میں حاضر تھے اور مرشد ختلی ؒ نے مرید علی ہجویری ؒ کی گود میں جان جان آفرین کے سپرد کی تھی ۔  اس واقعہ کو داتا حضورؒ یوں بیان فر ماتے ہیں  کہ حضرت شیخ ختلی  رحمۃ اللہ علیہ بروز وصال بیت الجن میں تھے،  یہ ایک گاؤں ہے گھاٹی پر،  جو بانیار ( رود با نیاں ) اور دمشق کے درمیان واقع ہے ۔ دم رحلت مرشد کریم شیخ ختلیؒ  کا سراقدس میری گود میں تھا اور میرا دل انسانی فطرت کے مطابق ایک سچے دوست کی جدائی پر رنجیدہ تھا ۔ اس حالت میں شیخ ختلیؒ نے فر مایا کہ  اے بیٹے! میں آپ کو اعتقاد کا ایک مسٔلہ بتاتا ہوں،  اگرآپ  اس پر مضبوطی سے عامل رہو گے تو آپ  تمام تکلیفوں سے محفوظ رہو گے ۔ یہ سمجھ لو کہ تمام مواقع اور حالات میں نیک اور بد کو پیدا کرنے والا خدائے عز وجل ہے،  لہٰذا اس کے کسی فعل پر رنجیدہ نہ ہونا اور رنج کو اپنے دل میں جگہ نہ دینا۔۔۔۔۔ اس کے علاوہ مرشد کریم نے اور کوئی لمبی وصیت نہیں فرمائی اور جان بحق تسلیم ہو گئے ۔۔(کشف المحجوب، طبع تہران، ص 109)۔

 حضرت با یزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ اور مشائخ طیفوریان رحمہم اللہ “سُکر “کو ترجیح دیتے تھے اور حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ  اور ان کے پیروکار” صحو” کو  فضیلت دیتے تھے ۔ حضرت ختلی  رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت داتا علی  ہجویری رحمۃ اللہ علیہ جنیدی ہونے کی وجہ سے” صحو”  کی افضلیت کے قائل تھے ۔ کشف المحجوب میں  حضور داتا گنج بخشؒ اپنے مرشد  کریم کی رائے نقل فر ماتے ہیں کہ” سکر”  بازیچٔہ اطفال اور “صحو” مردوں کا میدان فنا ہے ۔

حضرت داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں کہ  میرے شیخ کریم حضرت ختلی رحمۃ اللہ علیہ(سلسلہ جنید یہ میں ہیں) نے فرمایا    کہ “سکر” بازیچہ اطفال یعنی بچوں کے کھیل کو د کا میدان ہے اور “صحو” مردوں کے فنا کا مقام ہے اور میں یعنی علی بن عثمان الجلالبیؒ بھی اپنے شیخ  کی موافقت میں یہی کہتا ہوں ۔(کشف المحجوب، طبع تہران، ص 232)۔

سید محمد نور ؒ (م869ھ) بانی سلسلہ نور بخشیہ نے حضرت داتا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو دو بزرگوں  شیخ ختلی ؒ اور شیخ ابو القاسم گر گانی ؒ کا مرید و خلیفہ لکھا ہے ؛

حضرت داتاعلی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ  بھی سلسلہ جنیدیہ سے منسلک ہیں کیونکہ آپ اسی سلسلہ کے دو مشائخ کےمرید اور خلیفہ ہیں ، ایک شیخ ابو القاسم گر گانیؒ دوسرے شیخ ابو الفضل ابن ختلیؒ۔ (کتاب سلسلۃ الذہب، مشجر الاولیاء از سید نور بخش، طبع لاہور 1972، حصہ دوم، ص 22)۔

نوٹ؛ حقیقت یہ ہے کہ شیخ گر گانی رحمۃ اللہ علیہ حضور داتا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے شیخ صحبت یا شیخ تربیت ہیں نہ کر پیر بیعت ۔

 

داتا صاحبؒ کے ہم عصر مشائخ ؛

داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ حضرت شیخ ختلی رحمۃ اللہ علیہ کے علاوہ اور بھی بہت سے مشائخ کرام سے  فیض ، صحبت و شرف ، مکالمت سے بہرہ یاب ہوئے،  جن کا ذکر خیر کشف المحجوب میں مسطور ہے۔  مثلاًداتا حضورؒ شیخ ابو القاسم  بن عبد اللہ الگرگانی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں فر ماتے ہیں  کہ  میراشیخ ابوالقاسم لگرگانی رحمۃ اللہ علیہ  کے ساتھ انتہائی  راز و نیاز تھا،  اگر میں ان نشانیوں کے اظہار میں مشغول ہو جاؤں،  تواصل مقصد سے دور ہٹ جاؤں گا ۔(کشف المحجوب، طبع تہران، ص 212)۔

حضور داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کی ابو القاسم امام قشیری رحمۃ اللہ علیہ سے بھی صحبتیں  رہی ہیں اور آپ نے امام قشیریؒ  کا ذکرخیر بھی بڑی عقیدت کے ساتھ کیا ہے  کہ  استاد ، امام اور زینت اسلام ، عبد الکریم ابو ا لقاسم بن ہوازن القشیری  رحمۃ اللہ علیہ اپنے زمانہ کی فقید الامثال،  مقام و مرتبہ میں بلند اور بزرگ شخصیت ہیں  اور آپ کے ہم عصر آپ کے مشاغل اور کئی قسم کے فضائل سے خوب واقف ہیں ۔ ہر فن میں آپ کی بہت گہری نظر ہے اور آپ کی نفیس اور با کمال تصانیف محققانہ ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے دل و زبان کو بے ہودہ باتوں سے محفوظ رکھا ہے۔(کشف المحجوب، طبع تہران، ص 209)۔

حضرت داتا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی حضرت شیخ احمد حمادی  سر خسی  رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ ماوراء النہر (وسطی ایشا) میں محبت  و دوستی رہی۔ شیخ احمد حمادی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں داتا حضورؒ رقم طراز ہیں کہ خواجہ احمد حمادی سرخسی رحمۃ اللہ علیہ  جواں ہمت اور کچھ عرصہ میرے با وفا دوست رہے ہیں۔میں نے  آپ کے معمولات میں بہت عجائبات دیکھے ہیں،  آپ جواں مر د صوفیا  میں سے تھے ۔(کشف المحجوب، طبع تہران، ص 216)۔

داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کو صاحب تصانیف،  عالم و عارف حضرت ابو جعفر محمد بن المصباح  الصید لانی رحمۃ اللہ علیہ  سے بھی بڑی عقیدت تھی۔ آپ نے شیخ ابوجعفر الصیدلانی رحمۃ اللہ علیہ کی تصانیف ان ہی کے رو برو پڑھیں  اور اس حوالے سے آپ فرماتے ہیں کہ حضرت شیخ ابو جعفر محمد  بن المصباح الصید لانی  رحمۃ اللہ علیہ رئیس الصوفیہ ہیں۔  اظہار حقائق میں سلاست طبع کے مالک ہیں اور حسین بن منصور المعروف منصور حلاج رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ بڑی عقیدت رکھتے ہیں اور میں نے ان کی بعض تصانیف ان کو پڑھ کر سنائیں۔(کشف المحجوب، طبع سمر قند، ص 211)۔

حضور داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ابو سعید ابو الخیر شیخ ابو احمد المظفر بن احمد بن حمدان رحمہم اللہ اور متعدد دیگر اولیاء اللہ سے ملاقاتوں  کا حال کشف المحجوب کے مختلف مقامات پر فرمایا  ہے اور صرف خراسان میں تین سو صوفیاء کرام سے ملاقات کا ذکرخیر کیا ہے ۔(کشف المحجوب، طبع سمرقند، ص 216)۔

 

داتا علی ہجویریؒ کی حضرت خضر علیہ السلام سے ملاقات ؛

 لعل بیگ نے لکھا ہے کہ حضرت شیخ  داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ  بہت سے اولیاء وقت سے ملے اور ان کے ہم صحبت رہے ۔حضور داتا صاحب رحمۃ اللہ علیہ  حضرت خضر علیہ السلام سے گہری دوستی رکھتے تھے اور ان سے علم ظاہری و باطنی بھی  حاصل کیا تھا ۔(ثمرات القدس(خطی)، مملوکہ صاحبزادہ نصرت نوشاہی، شرقپورشریف)۔

 

داتا حضورؒ کی امام اعظمؓ سے عقیدت ؛

 حضرت داتا صاحب رحمۃ اللہ علیہ حنفی المذہب تھے اور امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے خاص عقیدت رکھتے تھے اور  اسی سبب آپ نےکشف المحجوب میں امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ  کا نام نامی و اسم گرامی نہایت تعظیم و تکریم سے اس طرح رقم فر مایا ہے؛

امام اماماں و مقتدائے سنیاں، شرف فقہا و عز علماء، ابو حنیفہ بن نعمان بن ثابت الخراز رضی اللہ عنہ۔(کشف المحجوب، طبع سمرقندی، ص 117)۔

حضرت داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ نے امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے کمالات کو تفصیل سے بیان کرتے ہوئے اپنا ایک ایمان افروز خواب بیان کیا  ہے اور اس سے ایک لطیف نکتہ اخذ کیا ہے۔ داتا حضورؒ فر ماتے ہیں  کہ  میں ملک شام میں تھا کہ  ایک مرتبہ جلیل القدر صحابی و مؤذن رسول اللہﷺ  حضرت سیدنا بلال حبشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے روضہ اطہر کے سر ہانے سو گیا اور خواب میں دیکھا کہ میں مکہ معظمہ میں ہوں اور حضور نبی کریمﷺ باب بنی شیبہ سے اندر تشریف لائے ہیں اور ایک بوڑھے شخص کو گود میں لیے  ہوئے ہیں ،  جس طرح کہ بچے کو شفقت سے گود میں لیتے ہیں ۔ میں دوڑ کر حضور انور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور سر کار ﷺ کے پائے اقدس  کو بوسہ دیا ۔  میں حیران تھا کہ یہ بزرگ کون ہیں جنہیں حضور نبی کریمﷺ نے اٹھایا ہوا ہے۔حضورنبی کریمﷺ بہ قوت معجزہ میرے اس باطنی خیال سے آگاہ ہو گئے اور ارشاد فر مایا کہ یہ شخص تیرا اور تیرے ملک والوں کا امام یعنی ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ ہے ۔

حضور داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ  مجھے اس خواب سے اپنے آپ اور اپنے وطن والوں سے بڑی امیدیں قائم ہو گئیں اور مجھے اس خواب سے یہ راز بھی منکشف ہوا کہ حضرت امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان لوگوں میں سے ہیں جو اپنے ذاتی اوصاف سے فانی ہو  چکے ہیں اور صرف احکام  شرع کے لیے باقی و قائم ہیں،  اس لیے کہ ان  کہ حامل اور رہبر خود جناب پیغمبر خدا ﷺ ہیں اور انہیں خود چلتے دیکھتا تو یہ سمجھتا کہ وہ باقی الصفت ہیں اور جو باقی الصفت ہو تا ہے وہ اجتہادی امور میں مخطی ہو تا ہے یا مصیب ۔  چونکہ انہیں  اٹھا کر لے جانے والے حضور پر نور ﷺ ہیں،  اس لیے وہ اپنی ذاتی صفات سے فانی اور رسول اللہ ﷺ کی صفات سے باقی ہیں ۔ جب پیغمبر سے کسی خطا کا صدور ممکن نہیں تو جو آنحضرت ﷺ میں اپنے آپ  کو فنا کر چکا ہے،  اس سے بھی خطا کا صدور ممکن نہیں ۔ یہ ایک لطیف رمز ہے ۔(کشف المحجوب، طبع سمرقند، ص 117)۔

 

داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کانکاح مبارک ؛

عبدالماجد دریا آبادی رقم طراز ہیں کہ حضور داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کو قید ازواج سے معلوم ہو تا ہے کہ ہمیشہ آزادی رہی البتہ ایک مقام پر آپ بیتی یوں بیان کرتے ہیں کہ جیسے غائبانہ کسی سے تعلقات محبت قائم ہو  گئے ہوں اور ایک سال تک اس زخم لطیف کے بسمل بنے رہے ، پھر آخر اس سے نجات مل گئی۔ اس حوالے سے بیان اتنا مجمل ہے کہ تفصیلات کا کچھ پتہ نہیں  چلتا۔ (تصوف اسلام، طبع سوم، ص 47)۔

حضرت داتا صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ  اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے مجھے گیارہ سال تک نکاح کی آفت سے محفوظ رکھا ہوا تھا ،  مگربہ تقدیر الٰہی میں پھر اس فتنہ میں گر فتار ہو گیا  اور میرا ظاہر و باطن اس (کسی عورت ) کی صفات کا جو مجھ سے دوسروں نے بیان کی تھیں،  اسیر ہو گیا اور اسے دیکھے بغیر ہی ایک سال تک اس کے خیال میں مستغرق  رہا ۔ چنانچہ قریب تھا   کہ میرا دین تباہ ہو جاتا ، اللہ تعالیٰ نے اپنے کمال اور فضل تمام سے  عصمت ( گناہ سے بچنے کی قوت ) کو میرے بیچارہ ٔدل کے استقبال کے لیے بھیجا اور اپنی رحمت سے مجھے اس فتنہ سے نجات دلائی ۔(کشف المحجوب، طبع سمرقند، ص 427)۔

پروفیسر نکلسن(مصنف تاریخ ادبیات عرب)  نے اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ  ازدواجی زندگی کے متعلق داتا حضور رحمۃ اللہ علیہ  کا تجربہ  بہت مختصر اور ناخوشگوار تھا ۔(دیباچہ کشف المحجوب، انگریزی ترجمہ از نکلسن، ص 10)۔

 ڈاکٹر مولوی محمد شفیع نے اس سلسلے میں اپنی رائے کا اظہار یوں کیا ہے  کہ  شادی کے متعلق داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کو جو معاملہ پیش آیا وہ خوش آئند ثابت نہ ہوا ۔(مقدمہ کشف المحجوب، نسخہ مولوی محمد شفیع، 1228ھ، ص3)۔

 اور حاشیہ میں ڈاکٹر مولوی محمد شفیع نے لکھا ہے کہ  میور یہ خیال  کرتا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہوا کہ حضرت داتا حضورؒ  بغیر شادی کے رہے ۔

سید صباح الدین عبد الرحمٰن  رقم طراز ہیں  کہ حضرت داتا صاحبؒ تعلقات زنا شوئی سے پاک رہے ۔(بزم صوفیہ، از سید صباح الدین عبدالرحمٰن، ص7)۔

 مگر اسی مجمل عبارت سے جناب محمد دین فوق مر حوم نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ حضرت داتا حضور رحمۃ اللہ علیہ نے ایک سے زیادہ شادیاں کیں ۔ محمد دین فوق لکھتے ہیں کہ حضرت  علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی پہلی شادی کا ذکر کہیں نہیں کیا کہ کب ہوئی،  کہاں ہوئی ؟ البتہ آپ نے دوسری شادی کا ذکر کیا ہے اور یہ لکھا ہے کہ گیارہ سال سےخدا تعالیٰ نے نکاح کی آفت سے بچایا ہوا تھا،   آخر مقدر نے اس میں پھنسا دیا اور میں عیال کی محبت میں دل وجان سے بن دیکھے ہی گرفتار ہو گیا ۔  یہ الفاظ ظاہر کرتے ہیں کہ آپ ؒ بچپن  میں ہی مناکحت کی زنجیروں میں جکڑ دیئے گئے تھے اور پہلی بیوی کے انتقال کے  بعد گیارہ سال  تک نکاح نہیں کیاتھا۔ ایسا  معلوم ہو تا ہے کہ آپ ؒ کی پہلی شادی بھی والدین کی موجودگی میں ہی ہوئی تھی اور دوسری شادی بھی ان کی موجودگی بلکہ یقیناً  ان ہی کے اصرار سے ہوئی ہو گی ۔

محمد دین فوق مرحوم  پھر ذرا آگے چل کر لکھتے ہیں کہ چنانچہ (داتا صاحب ؒ) لکھتے ہیں کہ ایک سال تک اس آفت میں غرق رہا ،یہاں تک کہ قریب تھا کہ میرا دین تباہ ہو جاتا کہ خدا تعالیٰ  نے اپنی کمال  مہربانی اور بخشش اور رحمت سے مجھے خلاصی عطا کی ۔ یہ الفاظ ظاہر کرتے ہیں کہ ایک سال کے بعد آپ ؒ کی دوسری بیوی کا بھی انتقال ہو گیا اور پھر آپ ؒ نے تا دم وصال نکاح کا نام نہیں لیا ۔(داتا گنج بخشؒ، مطبوعہ 1920ء، ص 13،14)۔

یہاں یہ بات واضح کرنا ضروری ہے کہ محمد دین  فوق مرحوم صاحب نے اس عبارت کا ٹھیک ترجمہ نقل نہیں کیا اور اس سے جو نتیجہ اخذ کیا ہے وہ بھی درست نہیں،  لہٰذا زیر بحث اقتباس کا ترجمہ یہاں پیش کر نا ضروری ہے ؛

 اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے مجھے گیارہ سال تک نکاح   کی آفت سے محفوط رکھا ہوا تھا مگر بہ تقدیر الٰہی میں پھر اس فتنہ میں گرفتار ہو گیا اور میرا ظاہر و باطن اس ( کسی عورت ) کی صفات کا جو مجھ سے دوسروں نے بیان کی تھیں،  اسیر ہو گیا اور اسے دیکھے بغیر ہی ایک سا ل تک اسکے خیال میں مستغرق رہا ۔ چنانچہ قریب تھا کہ میرا دین تباہ ہو جاتا،   اللہ تعالیٰ نے اپنے کمال لطف اور فضل تمام سے عصمت ( گناہ سے بچنے کی قوت ) کو میرے بیچارۂ دل کے استقبال کے لیے بھیجا اور اپنی رحمت سے مجھے اس فتنہ سے نجات دلائی ۔(کشف المحجوب، طبع سمرقند، ص 366)۔

 اس عبارت  پر غور کیا جائے تو حسب ذیل نتائج سامنے آتے ہیں کہ؛

 حضرت  داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ نے نکاح کیا تھا مگر آپ کی اہلیہ جوآپ کی مزاج شناس نہ تھیں  ، وفات پا گئیں اور  پھرآپ گیارہ سال تک تز ویج کے تصور و خیال سے بھی نا آشنار ہے ۔

گیارہ سال  بعد ایک عورت جسے داتا حضور رحمۃ اللہ علیہ نے دیکھا بھی نہیں تھا،  دوسروں سے اس کی خوبیاں معلوم ہونے پر اس کی محبت کے اسیر ہو گئے اور ایک سال تک اس کے عشق مجازی میں مبتلا رہے ۔

 صوفیاء کے نزدیک عشق مجازی میں گرفتار ہو نا ابتلاء میں مبتلا رہنا ہے ۔ یہ حضرات مجاز  میں گرفتاری کو مصیبت و آفت  سمجھتے ہیں،  اس لیے کہ یہ منزل نہیں ہے ۔

المجاز قنطرۃالحقیقۃ

 تو قدرت الٰہی نے  آپ کو مجاز سے نکال کر حقیقت کی راہ پر ڈال دیا اور جو لوگ صورت ظاہری اور مظاہر محسوسہ کے چکر  میں پھنسے رہتے ہیں،  وہ بر باد ہو جاتے ہیں جیسا کہ  شیخ فریدالدین  عطار رحمۃ اللہ علیہ  فر ماتے ہیں  کہ جو شخص ظاہری شکل و صورت کے عشق میں مبتلا ہوا ، اسی شکل و صورت کے سبب سینکڑوں مصائب میں بھی گرفتار ہو جاتاہے ۔

 حاصل کلام یہ کہ حضرت داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ  نے ایک شادی کی تھی اور  اہلیہ کی وفات کے گیارہ سال بعد ایک ایسی عورت کی خوبیوں  پر فریفتہ  ہوگئے جسے انہوں نے دیکھا نہیں تھا اور ایک سال تک اس کے عشق میں مبتلا رہے  اور با لآخر اللہ تعالیٰ نے آپ کے دل سے اس عورت کا خیال محو فر ما دیا ۔ لہٰذا دوسری شادی کاا فسانہ محض اختراع طبع ہے ۔

 

داتا گنج بخشؒ کی سیر و سیاحت؛

مردان خدا کی زیارت اور مزارات اولیاء اللہ سے استفادہ و استفاضہ کی غرض سے سفر کی صعوبتیں برداشت کرنا بہت بڑا مجاہدہ ہے، جو مشاہدہ کی دولت سے نوازتا ہے اور حضرت داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ مجاہدہ بھی حد کمال کو پہنچا دیا۔ روایات میں ہے کہ داتا حضورؒ نے عالم شباب کا زیادہ حصہ سیر و سیاحت اور سفر میں گزارااور  آپ نے تقریباً تمام عالم اسلام کی سیاحت کی اور وقت کے اعاظم مشائخ و صوفیاء سے اکتساب فیض کیا۔سیر و سیاحت سے داتا حضورؒ کو ازحد علمی فائدہ ہوااور روحانیت کو تقویت ملی اور آپ کو زندگی کے بہت سے مشاہدات اور تجربات حاصل ہوئے۔  داتا حضور رحمۃ اللہ علیہ نے ماورأالنہر، آذربائیجان، بسطام، خراسان، کمش، کمند، نیشاپور، بخارا، سمرقند، سرخس، طوس، شام، بیت الجن، دمشق، رملہ، عراق، بغداد، فارس، نواحی خورزستان، فرغانہ، شلاتک، اوزکند، میھنہ، مرو، ترکستان اور پاک و ہند سمیت متعدد ملکوں کے اسفار کیے۔ کشف المحجوب کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ داتا صاحبؒ نے پاک و ہند کے اکثر شہروں کی سیاحت کی تھی، یہاں کے علماء سے بھی ملے تھے اور یہاں کی تہذیب و تمدن، رسم و رواج اور ہندؤں کے عقائد سے گہری واقفیت حاصل کی تھی۔ فناء و بقاء کے مسئلے پر بحث کرتے ہوئے داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس مسئلے پر ہندوستان میں میرا صرف ایک عالم سے مناظرہ ہوا تھا۔

داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ہندوستان کے اندر میں نے ایک ایسا شخص دیکھا جو تفسیر و تذکیر اور علم کا مدعی تھا۔ اس نے مجھ سے فنا و بقاء کے مسئلے پر مناظرہ کیا۔ جب میں نے اس کی تقریر سنی تو معلوم ہوا کہ یہ خود فناء و بقاء کو بالکل نہیں سمجھتا اور قدیم و محدث کے فرق کو بھی نہیں جانتا۔(کشف المحجوب، طبع تہران، ص 313، 314)۔

داتا حضورؒ نے محبت کی شہرت اور تعریف کی بحث کے دوران سلطان محمود غزنوی رحمۃ اللہ علیہ سے ہندؤں کی قلبی ناراضی اور ان کی بے بسی کا ذکر نہایت لطیف پیرائے میں کیا ہے؛

داتا صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ہندؤں کے نزدیک محبت کی قید سلطان محمود غزنویؒ کی قید سے بھی زیادہ مشہور ہے اور محبت کا زخم اور داغ ہندؤں کے نزدیک اس زخم سے بھی زیادہ شہرت رکھتا ہے، جو سلطان محمود غزنویؒ نے انہیں لگایا تھا۔ (کشف المحجوب، طبع تہران، ص 399)۔

روایات میں ہے کہ داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ نے بے سروسامانی میں پاپیادہ اس قدر سفر کیے کہ آج کے ذرائع میں ایک بے سرو سامان فقیر کے لیے ان کا تصور بھی ناممکن ہے۔ اس حوالے سے لعل بیگ لعلی لکھتے ہیں کہ داتا حضور رحمۃ اللہ علیہ نے بہت طویل سفر فرمائے ہیں اور ریاضت اور پرمشقت طاقت بشری سے بالاتر مجاہدات فرمائے۔ (ثمرات القدس، خطی۔۔ مملوکہ صاحبزادہ نصرت نوشاہی، شرقپور شریف)۔

 

سید علی ہجویریؒ کی سلوک کی منازل؛

حضرت داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں ایک باطنی الجھن میں گرفتار ہوگیا۔ ایک روحانی راز تھا جو مجھ پر منکشف نہیں ہورہا تھا اور اس کے انکشاف کے لیے میں نے بڑی ریاضت کی مگر پھر بھی کوئی نتیجہ نہ نکلا۔ اس سے قبل بھی ایک مرتبہ ایسا ہی ہوا تھا اور میں حل کے لیے خواجہ بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کے مزار شریف پر حاضر ہوا اور چلہ کشی کی اور تب تک شیخ بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کے مزار شریف کا مجاور بنا رہا ، جب تک وہ حل نہ ہوا، اور آخر کار وہ حل ہوگیا۔

اس مرتبہ بھی حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کے مزار شریف پر حاضری دی اور تین بار مزار پاک کی مجاورت کی تاکہ مسئلہ حل ہو، مگر نہ ہوا۔ میں ہر روز تین مرتبہ غسل کرتا اور تیس بار وضو کیے اور امید کشف میں رہا مگر بالکل انکشاف نہ ہوا۔ بالآخر میں نے خراسان کا رخت سفر باندھا اور وہاں سے چل نکلا اور شہر  کے قریب ایک گاؤں “کمس” میں ایک شب رکا۔ یہاں ایک خانقاہ تھی اور اس خانقاہ پر جماعت متصوفین موجود تھی۔ میں نے خرقہ خشیش یعنی ٹاٹ کا کرتہ پہنا ہوا تھا اور نہایت تھکا ہوا تھا۔ میرے پاس سامان اہل رسم میں سے کچھ نہ تھا، سوائے ایک عصا اور کوزہ کے، یعنی ایک ہاتھ کی لکڑی اور چمڑے کے لوٹے کے سوا کوئی سامان نہ تھا۔

خانقاہ میں موجود تمام صوفیاء کی نظروں میں ، میں بہت حقیر نظر آیا اور میرا جاننے والا بھی اس جماعت میں کوئی نہ تھا۔ انہوں نے مجھے دیکھ کر عام رسم کے مطابق آپس میں گفتگو کی یہ شخص ہم میں سے نہیں ہے اور بات بھی یہی تھی ، جو انہوں نے کہی تھی کہ میں واقعی ان میں سے نہیں تھا، لیکن میرے لیے لابدی تھا کہ اس شب میں اسی جگہ قیام کروں۔ مجھے انہوں نے ایک بالاخانہ پر بٹھا دیا اور خود اس سے اونچے بالا خانہ پر بیٹھ گئے۔ مجھ کو ایک روٹی دی گئی جو بُس کر سبز رنگ کی ہوچکی تھی۔ میں اس کھانے کی بُو سونگھ رہا تھا ، جو وہ کھا رہے تھے اور میرے ساتھ طنزاً باتیں بھی کررہے تھے۔

بالاخانہ پر جب وہ حضرات کھانے سے فارغ ہوگئے تو وہ خربوزہ کھانے لگے اور اس کے چھلکے میرے اوپر پھینکتے رہے، اس لیے کہ میں شاید ان کی نظر میں بہت حقیر تھا۔ میرے دل میں خیال آیا کہ ؛ یاالٰہی! اگر یہ لوگ وہ ہیں جو تیرے دوست ہیں تو جامۂ دوست انہیں کیوں مل گیایا مجھے ان سے علیحدہ نہ کیا ہوتا۔ غرضیکہ جس قدر ان کی طعن مجھ پر زیادہ ہوتی جاتی تھی، میرا دل اندر سے بہت خوش ہورہا تھا، حتیٰ کہ ان کی طعن و طنز کے بوجھ سے مجھ پر میرا واقعہ حل ہوگیا اور میں نے جان لیا کہ مشائخ اور بزرگان طریقت کم فہموں کی زیادتیاں کیوں برداشت کرتے ہیں اور مجھے معلوم ہوگیا کہ ملامت برداشت کرنا بھی روحانی مدارج کی بلندی کا زینہ ہے اور اس میں بھی بڑے مفادات ہیں۔ (کشف المحجوب اردو از محکمہ اوقاف پنجاب، طبع 2015، ص 186 تا 187)۔

 

داتا حضورؒ کی لاہور آمد؛

شہزادہ داراشکوہ لکھتے ہیں کہ حضرت داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ نے تجرید و توکل کی بنیاد پر بارہا طویل سفر کیے اور بہت زیادہ سیاحت کے بعد دارالسلطنت لاہور میں اقامت گزین ہوئے اور اس شہر کے تمام باشندے آپ کے مرید اور معتقد ہوگئے۔(سفینۃ الاولیاء، طبع کانپور، ص 146)۔

لاہور تشریف لانے کے بعد داتا صاحب ؒ اسی مقام پر قیام پذیر ہوئے جہاں آپ کا مزار پرانوار ہے۔ اس حوالے سے لعل بیگ لعلی لکھتے ہیں کہ داتا حضور رحمۃ اللہ علیہ کی قبر مبارک خطہ لاہور میں اسی زمین میں واقع ہے، جہاں آپ کی پاکیزہ روح نے جسد عنصری سے پرواز فرمائی۔ (ثمرات القدس، خطی۔۔ مملوکہ صاحبزادہ نصرت نوشاہی، شرقپور شریف)۔

رائے بہادر کنہیا لال نے کسی مآخذ کا حوالہ دیے بغیر لکھا ہے کہ داتا صاحبؒ سلطان محمود غزنویؒ کے صاحبزادے سلطان مسعودؒ کے ہمراہ لاہور تشریف لائے۔ (تایخ لاہور از کنہیا لال، طبع لاہور 1884ء، ص91)۔

سید محمد لطیف لکھتے ہیں کہ داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ 431 ہجری میں سلطان محمود غزنوی رحمۃ اللہ علیہ  کے بیٹے سلطان مسعود رحمۃ اللہ علیہ کی فوج کے پیچھے لاہور تشریف لائے۔ (تاریخ لاہور انگریزی بحوالہ سوانح داتا گنج بخشؒ از محمد الدین فوق، ص 27)۔

رائے بہادر کنہیا لال کی تاریخ لاہور سے تقریباً 32 برس قبل لکھی جانے والی کتاب” چار باغ پنجاب”  میں گنیش داس وڈیرہ نے داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کی لاہور تشریف آوری کا سال 451 ہجری تحریر ہے۔ (چار باغ پنجاب، فارسی ازگنیش داس وڈیرہ، مرتبہ پروفیسر کرپال سنگھ، شائع کردہ سکھ ہسٹری ڈیپارٹمنٹ، خالصہ کالج امرتسر، 1948ء، ص 279)۔

 

داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ اور میراں حسین زنجانیؒ کی ملاقات؛

فوائد الفوائد میں درج  ہے کہ داتا حضورؒ کے پیر و مرشد خواجہ ابوالحسن ختلیؒ نے آپ سے فرمایا کہ لاہور چلے جائیں، جس پر آپ نے عرض کی کہ وہاں تو پہلے ہی میرے بھائی شیخ میراں حسین زنجانیؒ مقیم ہیں۔ خواجہ ختلیؒ نے اسرار کیا تو داتا حضورؒ لاہور چلے آئے اور رات کو پہنچے اور صبح صادق آپ نے دیکھا کہ لوگ حضرت میراں حسین زنجانیؒ کا جنازہ لے کر جارہے ہیں ۔(فوائد الفوائد، فارسی طبع، لاہور، ص57)۔

حضرت میراں حسین زنجانی رحمۃ اللہ علیہ کا مزار مبارک چاہ میراں لاہور میں مرجع خلائق ہے اور آپ کا سال وصال  خزینۃ الاصفیاء میں 600 ہجری اور تحقیقات چشتی میں 606 ہجری درج ہے اور آپ کی لاہور میں آمد کے متعلق لکھا ہے کہ آپ سید یعقوب زنجانی رحمۃ اللہ علیہ کے ہمراہ آئے اور سید یعقوب زنجانی رحمۃ اللہ علیہ کے حالات میں بیان کیا گیا ہے کہ وہ 535 ہجری میں لاہور آئے۔(خزینۃ الاصفیاء، جلد دوم، ص 250 تا 252)۔

فوائد الفوائد کی مذکورہ بالا روایت ضعیف ہے  کیونکہ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ حضرت میراں حسین زنجانیؒ حضرت داتا علی ہجویریؒ سے تقریباً 130 برس بعد واصل بحق ہوئے اور حضرت میراں حسین زنجانیؒ سے خواجہ خواجگان خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ نے لاہور میں ملاقات کی تھی اور ان دونوں بزرگوں کی ملاقات کا ذکر خیر معتبر کتابوں میں موجود ہے۔ معروف تذکرہ نویس اور صوفی بزرگ حضرت شیخ جمالیؒ نے یہ واقعہ یوں بیان کیا ہے کہ حضرت میراں حسین زنجانی رحمۃ اللہ علیہ( جو حضرت شیخ سعد الدین حمویہ رحمۃ اللہ علیہ کے پیر و مرشد ہیں)  اور خواجہ خواجگان خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کے درمیان حد سے زیادہ ربط و محبت کا اظہار ہوا ہے۔ (سیر العارفین، قلمی از شیخ جمالی، مخزونہ پنجاب یونیورسٹی لائبریری، بحوالہ تاریخ مقامات از پروفیسر محمد اسلم، ص 282)۔

ابوالفضل” آئین اکبری” میں ان دونوں بزرگوں کی ملاقات کا ذکر خیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ، حضرت میراں حسین زنجانی رحمۃ اللہ علیہ کی صحبت میں لاہور پہنچے اور وہیں آپ کی خواب گاہ ہے۔ (آئین اکبری، جلد سوم از ابوالفضل، سرسید ایڈیشن، 1272ھ، ص 207)۔

 

داتا علی ہجویری رحمہ اللہ علیہ کا انداز دعوت و تبلیغ؛

نائب رسول اللہﷺ حضرت داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ نے قیام لاہور کے دوران ہزارہا بت پرست کفار کو کلمہ توحید پڑھا کر ان کے سینوں کو نوراسلام سے منور کیا اور سینکڑوں خداؤں کو پوجنے والوں کو صرف ایک خدا کے حضور سجدہ ریز ہونے پر مائل کیا اور لاتعداد گم گشتگان بادیہ ضلالت کو صراط مستقیم پر گامزن کیا اور کتنے  ہی خوش نصیبوں کو اپنی نظر کیمیا اثر کی بدولت ولایت کے بلند مراتب پر فائز کیا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ سلطان محمود غزنویؒ کی حکومت کے قیام کے ساتھ ہی پاک و ہند میں مسلمان ایک حاکم قوم کی حیثیت سے رہنے لگے تھے اور یہاں کے کفار مسلم فاتحین سے بظاہر مرعوب تھے مگر ان کے قلوب مسلمان فاتحین کے ساتھ نہیں تھے اور وہ ہروقت موقع کی تلاش میں رہتے تھے۔ مگر یہاں تشریف لانے والے صوفیاء کرام بالخصوص حضرت داتا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ورود مسعود کے بعد یہاں کی مقامی آبادی میں سے لاتعداد لوگ ان کی تبلیغ کے سبب حلقہ بگوش اسلام ہوگئے۔ چنانچہ یہاں کے باشندوں میں سے ایک کثیر گروہ کی دلی ہمدردیاں فاتحین کے ساتھ ہوگئیں تھیں۔ نظریہ وطنیت خاک میں مل گیا اور دو قومی نظریہ کی بنیادیں رکھ دی گئیں اور بعد میں آنے والے صوفیاء کرام کی مساعی جمیلہ سے اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا گیا ، جس سے مسلمانوں کی حکومت استحکام پکڑتی گئی۔ ایک طرف فاتحین نے کفار کو تیروسنان سے زیر کیا تو دوسری طرف نائبین مصطفیٰﷺ نے بھٹکی ہوئی مخلوق خدا کو تیر نظر سے خدائے واحد کا مطیع و منقاد بنادیا۔

 

رائے راجو سے شیخ ہندی؛

مولوی نور احمد چشتی لکھتے ہیں کہ جب داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ لاہور تشریف لائے تو اس وقت یہاں ایک شخص نائب حاکم پنجاب  رائے راجو،  حضور داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کا مرید ہوکر مسلمان ہوا اور اس کا نام رائے راجو سے تبدیل کرکے شیخ ہندی رکھا گیا۔ شیخ ہندیؒ کی اولاد تاحال داتا دربارکی خادم و مجاور ہے۔(تحقیقات چشتی، طبع لاہور، 1324ھ، ص 147)۔

روایات میں ہے کہ جس غیر مسلم کو حضرت داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ نے حلقہ بگوش اسلام کیا وہ والی کابل و غزنی کی طرف سے پنجاب کا نائب حاکم،  رائے راجو تھا۔ رائے راجو ہندو تھا اور مشہور و معروف شخصیت کا حامل جوگی تھا۔ رائے راجو کے قبول اسلام کا واقعہ کچھ یوں بیان کیا جاتا ہے کہ ایک مرتبہ ایک بزرگ خاتون دودھ لے کر گزر رہی تھی کہ داتا حضورؒ نے اس بوڑھی عورت سے کہا کہ اس دودھ کی قیمت لے لو اور یہ دودھ ہمیں دے دو۔ اس بڑھیا نے کہا کہ نہیں ، میں ایسا نہیں کرسکتی کیونکہ یہ دودھ ہمیں مجبوراً رائے راجو کو دینا پڑتا ہے اور اگر نہ دیں تو اس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ ہمارے جانوروں کے تھنوں سے دودھ کی بجائے خون نکلنے لگتا ہے۔  داتا حضورؒ اس بڑھیا کی یہ بات سن کر مسکرائے اور فرمایا کہ یہ دودھ ہمیں دے دو، اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے تمہارے جانور بہت سا دودھ دیں گے اور جانوروں پر کوئی اثر نہیں ہوگا۔ چنانچہ اس بڑھیا نے وہ دودھ داتا صاحبؒ کو دے دیا۔

جب وہ بڑھیا گھر واپس آئی اور اس نے اپنے جانوروں کا دودھ دوہا تو دودھ اتنا زیادہ تھا کہ تمام برتن بھرگئے مگر دودھ ختم نہ ہوا۔ یہ خبر آناً فاناً قرب و جوار میں پھیل گئی اور لوگ جوق در جوق اپنے جانوروں کا دودھ لے کر داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت اقدس میں حاضر ہونے لگے اور کوئی بھی دودھ والا رائے راجو کی طرف رخ نہیں کررہا تھا۔ رائے راجو کو جب اس بات کا علم ہوا تو وہ بہت پریشان ہوا اور داتا حضورؒ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ حضور دودھ تو آپ نے ہمارا بند کر ہی دیا ہے، میں آپ کا کوئی اور کمال دیکھنے آیا ہوں۔ داتا حضورؒ نے فرمایا کہ میں کوئی جادوگر تو نہیں کہ جو شعبدہ بازی کے کمالات دکھاسکوں، میں تو مخلوق خدا میں سے ایک عاجز سا بندہ ہوں۔ باقی اگر تم میں کوئی کمال ہے تو دکھاؤ۔

رائے راجو  نے داتا حضورؒ کے سامنے کئی کرشمے دکھائے، حتیٰ کہ ہوا میں اڑنے لگا اور جب وہ ہوا میں اڑ رہا تھا تو حضرت داتا صاحبؒ نے اپنی پاپوش مبارک(چپلیں) اس کی طرف پھینکیں۔ وہ جوتیاں رائے راجو کے سر پر پڑنے لگیں اور جب حق کے سامنے باطل کی کوئی پیش نہ گئی تو اس نے داتا حضورؒ کی خدمت میں حاضر ہوکر قبول اسلام کیا اور آپ کے دست حق پرست پر بیعت ہوگیا اور بیعت کے بعد داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ رائے راجو کی باطنی اور روحانی اصلاح فرماتے رہے اور اس کا نام رائے راجو سے تبدیل کرکے شیخ ہندی رکھ دیا۔ (تذکرہ ٔ اولیائے لاہور از علامہ عالم فقری، ص 59 تا 60)۔

 

داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کی تعمیر مسجد اور کرامت کا ظہور؛

حضرت داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ نے لاہور تشریف لاتے ہی اپنی فرودگاہ کے ساتھ ایک چھوٹی سی مسجد تعمیر کرائی۔ اس ضمن میں شہزادہ دارا شکو لکھتے ہیں کہ داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ نے ایک مسجد تعمیر کرائی تھی، جس کی محراب دیگر مساجد کی بہ نسبت جنوب کی طرف مائل ہے۔ کہتے ہیں کہ اس وقت کے علماء جو لاہور میں موجود تھے، اس محراب کی سمت کے سلسلے میں داتا حضور رحمۃ اللہ علیہ پر معترض ہوئے۔ چنانچہ ایک روز داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ نے سب علماء کو جمع کیا اور خود امامت کے فرائض سرانجام دیے اور بعد ادائے نماز حاضرین سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ دیکھو کعبہ شریف کس سمت میں ہے؟ علماء نے دیکھا تو حجابات اٹھ گئے اور کعبہ شریف محراب کی سیدھ میں نمودار ہوگیا۔ داتا علی ہجویریؒ کا مزار مبارک بھی آپ کی مسجد کی سمت کے مطابق ہے۔ (سفینۃ الاولیاء، فارسی، طبع کانپور، ص 164)۔

 

علامہ اقبالؒ کی داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ سے عقیدت؛

شاعر مشرق، مفکر پاکستان حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کی عظیم الشان دینی خدمات اور روحانی عظمت کو چند اشعار میں جو خراج عقیدت پیش کیا ہے، وہ ان ہی کا خاصہ ہے۔ علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں کہ؛

سید ہجویر مخدوم امم

مرقد او پیر سنجر را حرم

بند ہای کوہسار آساں گسیخت

درزمین ہند تخم سجدہ ریخت

عہد فاروقؓ از جمالش تازہ شد

حق ز حرف او بلند آوازہ شد

پاسبان عزت ام الکتاب

از نگاہش خانہ باطل خراب

خاک پنجاب از دم او زندہ گشت

صبح مااز مہر او تابندہ گشت

عاشق و ہم قاصد طیار عشق

از جنبش آشکار اسرار عشق

علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں کہ سید ہجویر مخدوم امم آپ کا مزار مبارک پیر سنجر خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کا حرم مبارک ہوا۔آپ نے سنگ دل سخت مزاج لوگون کی سختیوں کو ختم فرماکرزمین ہند میں سجدہ ریزی کی تخم پاشی فرمائی۔ آپ کی حسن معاشرت کے جمال جہاں آراء سے عہد فاروقی کی یادتازہ ہوئی  اور آپ کی گفتار سے حق کا بول بالا ہوا۔ آپ محافظ ناموس قرآن ہیں اور آپ کی نگاہ فیض سے باطل ماتم کدہ ہوا۔ خاک پنجاب کو آپ کے قدم میمنت لزوم کی برکت سے عروج حاصل ہوا ۔  ہماری صبح آپ کی ذات کے سورج سے روشن ہوئی۔آپ  ایسے عاشق صادق اور شہید خنجر تسلیم ہیں کہ آپ کی ہلکی سی جنبش سے اسرار عشق و مستی ظاہر ہوتے تھے۔

 

حضرت مجدد الف ثانیؒ کی داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ سے محبت و عقیدت؛

حضرت مجدد الف ثانی سرہندی رحمۃ اللہ علیہ نے لاہور کو جو قطب ارشاد کا درجہ دیا ہے، اصل میں یہ اسی قطب الاقطاب(داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ) کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔ شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ فقیر کے نزدیک یہ شہر لاہور تمام ہندوستان کے شہروں میں قطب ارشاد کی طرح ہے، اس شہر کی خیر و برکت تمام بلاد ہندوستان میں پھیلی ہوئی ہے۔ (مکتوبات مجدد الف ثانیؒ، اردو ترجمہ مولانا محمد سعید احمد نقشبندی، طبع کراچی، دفتر اول، حصہ اول، ص 238)۔

 

داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کا وصال مبارک؛

حضرت داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کے سال وصال میں بھی خاصا اختلاف پایا جاتا ہے۔ لعل بیگ لعلی نے “ثمرات القدس” اور شہزادہ داراشکوہ نے” سفینۃ الاولیاء” میں داتا صاحبؒ کے سن وفات 456ھ اور 464ھ رقم کیے ہیں۔ عہد جہانگیری کے عالم و عارف مولانا جامی لاہوریؒ نے اپنے” قطعہ تاریخ “میں 465ھ تحریر کیا ہے۔ میر غلام علی آزاد بلگرامی نے “مآثر الکرام “میں، گنیش داس وڈیراہ نے “چار باغ پنجاب “میں، سامی بیگ نے “قاموس الأعلام “میں متفقہ طور پر 465 ہجری ہی لکھا ہے اور دیگر مؤلفین نے بھی یہی سن نقل کیا ہے۔ پروفیسر نکلسن نے 465ھ تا 469ھ کا کوئی سال کہا ہے اور ڈاکٹر قاسم غنی نے “تاریخ تصوف دراسلام”، جلد دوم میں داتا حضور رحمۃ اللہ علیہ کا سن وصال 470ھ تجویز کیا ہے۔

ڈاکٹر مولوی محمد شفیع نے داتا گنج بخشؒ کا سن وصال 479ہجری لکھا ہے۔(مقالات دینی و علمی از ڈاکٹر مولوی محمد شفیع، حصہ اول، ص 231)۔

جبکہ عبدالحیی حبیبی قندھاری نے داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کا سن وصال 500 ہجری تجویز کیا ہے۔(مقالات منتخبہ مجلہ دانش کدہ خاور شناسی، دانش گاہ پنجاب، مقالہ؛ تاریخ وفات داتا گنج بخش علی ہجویری غزنویؒ از عبدالحیٔی حبیبی)۔

بہرحال حضرت علی بن عثمان ہجویری المعروف داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کا صحیح سن وصال کسی معاصر نے نہیں لکھا، لہذا 456 ہجری قطعاً غلط  تصور ہوتا ہے۔ تاہم 465 ہجری تا 469 ہجری ہی قرین صحت سمجھا جاسکتا ہے۔

 

داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کا مزارپرانوار؛

حضور داتا صاحبؒ کا مزار اقدس لاہور میں بھاٹی گیٹ کے بیرون غربی جانب واقع ہے۔ روایات میں ہے کہ داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ ، ظہیر الدولہ سلطان ابراہیم بن مسعود بن محمود غزنویؒ کے عہد حکومت میں واصل الی اللہ ہوئے تھے اور اسی سلطان نے ہی داتا صاحبؒ کا مزار شریف تعمیر کرایا تھا اور یہ بھی لکھا  ملتا ہے کہ داتا حضورؒ کے ساتھ جو دو قبریں ہیں وہ شیخ احمد حمادی سرخسی رحمۃ اللہ علیہ اور شیخ ابوسعید ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کی ہیں۔ (تحقیقات چشتی، ص145)۔

یوں تو جملہ ارباب یقین کے قلوب حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کے مزار میں ہیں مگر جہاں وہ محو استراحت ہیں، وہ مقام بوسہ گاہ عالم، قبلۂ اہل صفا اور کعبۂ عشاق ہے۔ یہاں عوام کے علاوہ ہر وقت اولیائے ظاہرین و مستورین کا ہجوم رہتا ہے۔ پاکستان بھر میں یہ وہ متبرک و مقدس مقام ہے جہاں جملہ مقامات مقدسہ  سے زیادہ قرآن خوانی ہوتی ہے۔ جہاں سب سے زیادہ ذکر رب تعالیٰ اور ذکر محبوب رب العالمینﷺ ہوتا ہے اور یہ تبلیغ اسلام اور روحانیت کا سب سے بڑا مرکز ہے، جہاں ہر وقت حاجت مند زائرین کا تانتا بندھا رہتا ہے اور داتا سخی کے دریائے فیض کو دیکھ کر بے اختیار ان کی زبان پر جاری ہوجاتا ہے کہ

گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا

ناقصاں را پیر کامل کاملاں را رہنما

حضور داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کا مزار فائض الانوار زمانہ قدیم سے مرجع خواص و عوام چلا آرہا ہے۔ بڑے بڑے عارفین اور سرخیل اولیاء کرام یہاں سے فیض  یاب ہوئے ہیں اور اس خانقاہ کی دھول کو اپنی آنکھوں کا سرمہ بنانا عین سعادت سمجھتے رہے ہیں۔ مولانا جامی لاہوریؒ لکھتے ہیں کہ؛

خانقاہ علی ہجویری است

خاک جاروب از درش بردار

طوطیاں کن بدیدہ حق ہیں

تاشوی واقف در اسرار

چوں کہ سردار ملک معنی بود

سال وصلش برآید از سردار

خانقاہ داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کی چوکھٹ پر جاروب کشی کرکے خاک آستاں کو سرمہ بنا۔ دیدۂ حق بیں کے لیے تب کہیں واقف اسرار حق ہوگا۔ کیونکہ آپ بحر حقیقت کے شہنشاہ ہیں اور آپ کے وصال باکمال کے سال کی تاریخ مبارک لفظ سردار سے ظاہر ہوتی ہے۔ (مقدمہ کشف المحجوب از ڈاکٹر مولوی محمد شفیع، ص 8)۔

میر عبدالعزیز زنجانی جو غالباً مغل بادشاہ شاہجہاں کے زمانہ کے شاعر ہیں، نے عرفی کے مشہور قصیدے کے جواب میں لاہور پر ایک قصیدہ لکھا،اور اس میں داتا حضورؒ کے روضۂ اطہر پر جو زائرین کا ہجوم رہتا ہے، اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ؛

مزار در نثار شاہ ہجویری ندیدستی

کہ محل آسابہ پیرا مونش جوش انس و جاں بینی

گدای درگہش از منزلت شاہ جہاں یابی

غلام خادمش از رتبہ مخدوم جہاں بینی

سید ہجویر رحمۃ اللہ علیہ کا مزار در نثار، آپ نے نہیں دیکھا؟  ایسا بارونق مقام جہاں تجھے ہجوم انس و جاں ہر وقت دکھائی دے گا۔ آپ کی چوکھٹ کے گدا شاہی مقام رکھتے ہیں ۔ آپ کے خدام سے نسبت رکھنے والے تجھے مخدوم جہاں نظر آئیں گے۔ (مقدمہ کشف المحجوب از ڈاکٹر مولوی محمد شفیع، ص 8)۔

شہزادہ دارہ شکوہ لکھتے ہیں کہ داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پرانور پر ہر جمعرات کو خلقت جوق در جوق روضۂ اطہر کی زیارت سے مشرف ہوتی ہے اور مشہور ہے کہ جوکوئی چالیس جمعراتیں یا چالیس دن متواتر داتا حضور ؒ کے روضۂ اطہر کا طواف کرے ، اس کی ہر حاجت پوری ہوجاتی ہے۔ فقیر(دارا شکوہ) نے بھی داتا صاحبؒ کے روضۂ منورہ کی زیارت کی ہے۔ (سفینۃ الاولیاء، طبع کانپور، ص 165)۔

شہزادہ داراشکوہ  داتا دربار کے محل وقوع کے بارے میں لکھتے ہیں کہ؛

قبر درمیان شہر لاہور مغربی قلعہ واقع شدہ

یعنی داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کی قبر مبارک لاہور شہر میں قلعہ لاہور سے مغرب کی جانب واقع ہے۔ (سفینۃ الاولیاء، طبع کانپور، ص 165)۔

لاہور شہر کا نقشہ تبدیل ہوجانے کے سبب شہزادہ داراشکوہ کی یہ تحریر مبہم ہوگئی ہے۔ پھر ترجمہ کرنے والے نے غلطی کھائی تو آج سے چند برس قبل لاہور کے ایک ایسے مولوی صاحب نے جو صوفیاء کے مزارات پر حاضری کو بدعت سمجھتے تھے ، نے یہ اعلان داغ دیا کہ یہ مزار داتا صاحبؒ کا نہیں، بلکہ داتا حضورؒ کا مزار شریف قلعہ لاہور میں ہے۔ اس وقت مولوی موصوف کے اس بیان کے خلاف متعدد مضامین بھی شائع ہوئے تھے۔

شہزادہ دارا شکوہ کی اس تحریر کے ابہام کو ڈاکٹر مولوی محمد شفیع نے اس طرح حل کیا ہے کہ؛

شہزادہ داراشکوہ نے یہ کہا ہے کہ قبر شہر لاہور کے درمیان ، قلعہ کے مغرب میں واقع ہے۔

یہ کچھ عجیب سا بیان ہے، اس لیے کہ قبر شہر کی فصیل سے باہر ہے۔ البتہ شہر کی بیرونی آبادی کے درمیان  ہے اور قلعہ کے مغرب کی بجائے جنوب مغرب کہنا زیادہ صحیح تھا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شہزادہ داراشکوہ کے زمانہ میں قلعہ سے مغرب کو آتے تھے تو بادشاہی مسجد جو کہ اس وقت تھی ہی نہیں، پہلا قابل ذکر مقام راوی کا گھاٹ تھا۔ دریا اس وقت قلعہ کے نیچے سے بہتا تھا۔ اس گھاٹ کو کابل جانے والی سڑک عبو ر کرتی تھی اور گھاٹ کے بعد داتا صاحبؒ کے مزار والا علاقہ ہی قابل ذکر تھا۔ چنانچہ  فنچ نامی ایک انگریز سیاح نے جو 1611ء یعنی عہدی جہانگیری میں تقریباً چھ ماہ لاہور کے قریب ٹھہرا رہا ، اس نے اسی ترتیب سے اس مواضع کا ذکر کیا ہے اور فنچ نامی انگریز سیاح نے مسجد گنج بخش کی بجائے مسجد شکر گنج کہا ہے۔(مقدمہ کشف المحجوب از ڈاکٹر مولوی محمد شفیع، ص 6 تا7)۔

 

داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کا عرس مبارک؛

داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کا عرس مبارک ہر سال 18، 19 اور 20 صفر المظفر کو  بڑی عقیدت و احترام سے منایا جاتا ہے،  مگرعرس مبارک کی تیاریاں ماہ صفر المظفر کا چاند دیکھتے ہی شروع ہو جاتی ہیں۔ ملک بھر سے اور بیرون ملک سے لاکھوں کی تعداد میں زائرین ہر سال یہاں آتے  ہیں۔ عرس میں شامل ہونے کے لیے لوگ عموماً پیدل اور ننگے پاؤں اپنے گھروں سے مزار تک آتے ہیں اور مٹی کے دیے روشن کرنے کے علاوہ منتیں اور دعائیں بھی مانگتے ہیں۔

داتا گنج بخش  رحمۃ اللہ علیہ کے سالانہ عرس کی تین روزہ تقریبات میں مزار پر چادر پوشی کا سلسلہ جاری رہتا ہے، زائرین فاتحہ خوانی کرتے ہیں، سلام پیش کرتے ہیں، منتیں مانتے ہیں اور ساتھ ہی مزار سے متصل مسجد کے احاطے میں تینوں دن مجالسِ مذاکرہ  بھی منعقد کی جاتی  ہیں۔ کہتے ہیں  کہ لاہور میں کبھی کوئی بھوکا نہیں سوتا، چاہے وہ اسی شہر کا باسی ہو یا کوئی پردیسی۔ عام دنوں میں داتا دربار میں  24 گھنٹے لنگر چلتا ہے ، جسے ہزاروں افراد کبھی تبرک سمجھ کر یا پھر اپنے پیٹ کی بھوک مٹانے کے لیے کھاتے بھی ہیں اور گھر والوں کے لیے بھی لے جاتے ہیں۔  عرس کے دنوں میں اس لنگر میں بھی برکت ہوجاتی ہے، انتظامیہ کے ساتھ ساتھ زائرین کی بڑی تعداد لنگر کا انتظام کرتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس تبرک سے مستفید ہوسکیں۔

 

داتا کی نگری؛

حضرت داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کا مزار پرانوار لاہور میں ہے اور اسی نسبت سے لاہور کو داتا کی نگری بھی کہتے ہیں۔ لاہور کی سرزمین اس پر جتنا بھی فخر کرے وہ کم ہے کہ ایک ایسی برگزیدہ اور بلند پایہ ہستی یہاں آرام فرما ہے، کہ جس کی آمد نے ہند کے اس عظیم خطہ میں شمع ایمان افروزاں کی۔ یہی وہ قدسی بارگاہ ہے جہاں خواجہ خواجگان خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ بھی اکتساب فیض کے لیے مقیم رہے۔ داتا صاحبؒ کے مزار پرانوار کی خاک اکابرین صوفیاء کے لیے سرمہ بصیرت اور تاج عزت ہے۔ یہی وہ مقام ہے جو آج تک قبلہ اہل صفا بنا ہوا ہے اور جہاں انوار الٰہی ہر وقت برستے ہیں۔ یہاں عوام بھی حاضر ہوتے ہیں، صوفی بھی اور عالم بھی۔ ہر ایک یکساں عقیدت کے ساتھ آتا ہے۔ یہاں کی فضا میں ہروقت اور ہر لمحہ ذکر رب تعالیٰ اور ذکر حبیب اللہﷺ جاری و ساری رہتا ہے اور داتا حضورؒ کے فیض سے جھولیاں بھرنے والوں کا ہر وقت ہجوم رہتا ہے۔ بقول شاعر مشرق علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ؛

خاک پنجاب از دم او زندہ گشت

صبح ما از مہر او تابندہ گشت

 

داتا علی ہجویریؒ کی تصانیف ؛

حضرت داتا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی آخری تصنیف کشف المحجوب کے مطالعہ سےآپ کی 9 اور تصانیف کے نام معلوم ہوتے ہیں مگر ان میں سے ایک بھی دستیاب نہیں ۔ بعض کے سرقہ اور دوسروں  کا اپنی طرف منسوب کر لینے کا واقعات حضرت داتا حضورؒ نے خود لکھے ہیں ۔ ان 9 تصانیف کے نام یہ ہیں ؛

 

دیوان ؛

اس دیوان کو کسی نے اپنی طرف منسوب کر لیا ۔( کشف المحجوب،طبع تہران، ص 2) مگر یہ نہیں لکھا کہ یہ مجموعہ اشعار فارسی میں تھا یاعربی میں اور اپنا  تخلص  بھی ظاہر نہیں فر مایا ۔ اس کے با وجود کشف اسرار کے واضع نے آپ  کا تخلص “علی”  گھڑ کر ایک غیر معیاری غزل اور چند اشعار بھی شامل کر دئیے ہیں ۔

 

کتاب فنا و بقا ؛

 مسٔلہ فنا و بقا ۔ ( کشف المحجوب،طبع تہران ، ص 67)

 

اسرار الخرق و المؤونات ؛

 ظاہری اور باطنی مرقعہ کے آداب ۔( کشف المحجوب،طبع تہران ، ص 63)

 اس کتاب کا نام فارسی کے تمام ایڈیوشنوں میں یہی لکھا ہے،  مگر ژو کو فسکی ایڈیشن میں “اسرار الخرق و الملونات “درج ہے ۔

 

الرعایۃ بحقوق اللہ تعالیٰ؛

 مسائل توحید  پر ۔( کشف المحجوب،طبع تہران ، ص 360)۔

 اس نام کی ایک تصنیف شیخ احمد بن خضر و یہ (متوفی 240ھ ) کی بھی ہے،  جو کشف المحجوب کے مآخذوں میں شامل ہے اور اسی نام کی ایک کتاب ابو عبداللہ  الحارث بن اسد  المحاسبی (متوفی243ھ ) کی تصنیف بھی ہے،  جو لندن سے چھپ چکی ہے ۔

 

کتاب البیان لاہل  العیان ؛

 در معنی جمع تفرقہ ۔ (کشف المحجوب،طبع تہران ، ص 333)۔

 

نحو القلوب ؛

 مسٔلہ جمع پر مفسل کتا ب ہے ۔ ( کشف المحجوب،طبع تہران ،  ص 333)۔

 

منہاج الدین ؛

 طریقت، تصوف اور مناقب اصحاب صفہ پر مشتمل ہے اور حسین بن منصور حلاج  رحمۃ اللہ علیہ کا حال بھی بیان کیا ہے ۔ ( کشف المحجوب،طبع تہران ،  ص 2،96،192)۔

 دیوان کی طرح اسے بھی  کسی نے اپنی طرف منسوب کرلیا ۔

 

ایمان ؛

 ایمان او راثبات،  اعتقاد مشائخ میں ایک رسالہ لکھا جس کا نام نہیں بتایا ۔ ( کشف المحجوب،طبع تہران ، ص 368)۔

 

 شرح کلام منصور ؛

 حسین بن منصور حلاج  رحمۃ اللہ علیہ کے کلام  کی شرح ۔( کشف المحجوب،طبع تہران، ص 192)۔

 

پروفیسر ژو کو فسکی کا سہو ؛

روسی ادیب پروفیسرژوکوفسکی نے حضرت داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کی تصانیف میں ایک نام” فرقِ ِفرَق “دیا  ہے۔(مقدمہ کشف المحجوب از ژوکوفسکی، طبع تہران، ص50)۔

حالانکہ یہ داتا حضورؒ  کی کسی مستند تصنیف کا نام نہیں بلکہ یہ کشف المحجوب کے ایک باب کا نام ہے ۔اس کی  تفصیل کچھ  اس طرح ہے کہ حضرت داتا صاحب ؒ نے بغداد شریف کے نواح میں ملا حدہ کا ایک ایسا گروہ دیکھا  جو حضرت حسین بن منصور  حلاج  رحمۃ اللہ علیہ  سے محبت کا مدعی تھا اور ان کے کلام سے اپنی زند یقیت کوسہارا دیتا تھا اور منصورحلاجؒ کے معاملہ میں مبالغہ کر تا تھا،  جس طرح کہ روافض حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم کی محبت میں غلو کرتے  ہیں۔  اس کے بعد داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ فر ماتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو ان کلمات کے رد میں، میں ایک باب” فرقِ ِفرَق ” کے نام سے لاؤں گا ۔(کشف المحجوب، طبع تہران، ص192)۔

۔”بابی بیا ورم “سے ژو کو فسکی کا ذہن ایک مستقل تصنیف کی طرف منتقل ہو گیا،  حالانکہ اس کی “مصححہ و محشی “کشف المحجوب کا تیرہواں اور مطبوعہ سمر قند کا یہ چو دہواں باب ہے ۔(کشف المحجوب، طبع تہران، ص218)۔

 

ٍکشف الاسرار؛

آٹھ صفحات پر مشتمل یہ رسالہ حضرت داتا صاحب ؒ کی طرف منسوب ہے،  جوغالباً پہلی بار مطبع محمدی لاہور میں طبع ہوا ،پھر اس کے متعدد اردو ترجمے شاع ہوئے ۔اس رسالے پر سن اشاعت تحریر نہیں مگر ڈاکٹر مولوی محمد شفیع کا بیان ہے کہ چھ اوراق کا ایک رسالہ” فقرنامہ” مشہور بہ” کشف الاسرار” کے نام سے کشف المحجوب ہی پر مبنی کرکے شاید 1870ء میں لاہور ہی سے شائع ہوا۔(مقالات دینی و علمی، حصہ اول، ص 228)۔

اکثر محققین نے اسے حضرت داتا حضورؒ کی تصنیف سمجھ لیا اور اس سے استفادہ کرتے رہے حالانکہ یہ رسالہ بزبان حال اپنے وضعی ہونے کی شہادت خود دے رہا ہے ۔ سر دست اس کی نقاب کشائی کر نا مقصود ہے کہ کشف الاسرار کے جعلی ہونے کا بعین ثبوت یہ ہے کہ یہ  سبک ہندی میں ہے اور کشف المحجوب کی نثردور  اول یعنی دور سامانیاں کی ہے اور ان دونوں کی زبان میں فرق کرنا کچھ مشکل نہیں ہے ۔

 اس کا مؤلف اپنے پرا گندہ خیالات کو ایک مشہورو معروف بزرگ کے نام سے مشتہر دیکھنے کا خواہاں تھا یا اپنے کسی بڑے(  جیسا کہ حسام الدین کا نام لیا ہے ) کو داتا صاحب ؒ سے پہلے کا بزرگ ثابت کر کے اپنی دکان چمکانا چاہتا تھا۔  علمی اعتبار سے بھی بے مایہ ہے  کہ حضرت داتا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے مزار کی مرجعیت کے پیش نظر کئی اور مزاروں کے مجاوروں نے یہ مشہور کردیا کہ یہ داتا صاحبؒ سے پہلے کے بزرگ ہیں اور داتا صاحبؒ یہاں حاضری دیتے رہے ہیں۔ چناچہ سید احمد توختہ ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کی صاحبزادیوں کے مزارات (قبور بیبیاں پاک دامن) مجاوروں نے دور آخر کے مؤلفوں سے یہ لکھوادیا کہ یہ سید زادیاں کربلا کے حادثہ فاجعہ کے بعد لاہور آگئیں تھیں۔ اسی طرح حضرت پیر مکی رحمۃ اللہ علیہ کے مجاوروں نے عوام میں یہ مشہور کررکھا ہے کہ داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان ہے کہ میرے پاس آنے سے پہلے ان کے مزار پر حاضری دیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ بعض لوگ تو حضرت پیر مکی رحمۃ اللہ علیہ کو حضرت داتا صاحبؒ کا استاد کہنے سے بھی نہیں چوکتے، وغیرہ وغیرہ۔

 یہ تاریخی حقیقت ہے کہ پنج ہزاری اور ہفت ہزاری خطابات مغلیہ دور میں ایجاد ہوئے یعنی حضرت داتا صاحبؒ کے کئی سو سال کے بعد ، مگر کشف الاسرار کا واضع لکھتا ہے کہ اگر ہفت ہزاری کے لقب سے شہرت پا ئی تو کیا ہوا،  تیری اصل تومشت خاک (مٹھی بھر مٹی) ہی ہے ۔(کشف الاسرار، طبع لاہور، ص4)۔

رسالہ کے آخر میں تحریر ہے  کہ؛

از گفتہ من رنجی نہ کنی و غصہ نہ کنی کہ من راست گفتہ ام

یعنی میری بات محسوس نہ کرنا اور نہ ہی غصہ کرنا میں نے سچ کہا ہے ۔(کشف الاسرار، طبع لاہور، ص7)۔

بررسولاں بلاغ باشدوبس

پیغمبروں پر پہنچانا لازم ہے اور بس ۔(کشف الاسرار، طبع لاہور، ص8)۔

حضرت  شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ کا مصرع داتا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا نقل کرنا کرامت ہی سمجھا جا سکتا ہے ۔

 

کشف المحجوب ؛

 حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری  رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ کی شہرہ آفاق  تصنیف کشف المحجوب ، جوآپ  نے آغوش رحمت خداوندی میں بیٹھ کر لکھی ہے ، مسائل شریعت و طریقت  اورحقیقت و معرفت کا ایک بیش بہا گنجینہ ہے اور اولیاء متقد مین کے حالات با برکات اور ان کی مقدس تعلیمات کا بہترین خزینہ ہے  اور فارسی زبان میں تصوف  و احسان پر لکھی جانے والی یہ سب سے پہلی کتاب ہے اور اسے ہر دور کے اولیاءاللہ اور صوفیاء کرام رحمہم اللہ علیہم  نے تصوف کی بے مثل کتاب قرار دیا ہے ۔

کشف المحجوب کاملین کے لیے رہنما ہے تو عوام کے لیےپیر کامل کی حیثیت رکھتی ہے ۔چنانچہ عوام میں سے اس کا مطالعہ کرنے والوں کو دولت عرفان و ایقان حاصل ہوتی ہے اور شکوک و شبہات کی وادی میں بھٹکنے والے یقین  کی دنیا میں آباد ہو جاتے ہیں اور اس کے بار بار کے مطالعہ سے حجابات اٹھ  کر نئے نئے انکشافات ہوتے ہیں۔  اس نادر و بے مثل کو جو پذیرائی و مقبولیت حاصل ہوئی وہ ا س موضوع کی کسی اور فارسی میں لکھی کتاب کے حصے میں نہیں آئی۔  اکابر اولیاء اللہ نے خود اس سے استفادہ کیا اور طالبان حق کو اس سے مستفید ہونے کی تلقین فر مائی، اس لیے کہ اس میں نا قصوں اور کاملوں کے لیے سامان ہدایت موجود ہے اور اس کے بر عکس بعض کتب تصوف ، فصوص الحکم وغیرہ میں صرف خواص بلکہ اخص الخواص کے لیے رہنمائی ہے اور ناقصین کے لیے حیرانی و سر گر دانی کے سوا کچھ نہیں ہے ۔

 

 وجہ تسمیہ و کیفیت کشف المحجوب ؛

 کشف المحجوب  حضرت داتا گنج بخش ؒ کی آخری تصنیف ہے جو آپ نے جناب ابو سعید ہجویری ؒ کی درخواست پر لکھی اور انکے سوالات کی اساس پر یہ نوارانی صحیفہ تیار ہوا ۔ اس مبارک کتاب کی وجہ تسمیہ اور غایت تصنیف حضرت داتا حضورؒ کے قلم اعجاز رقم نے یہ لکھی ہے ؛

 یہ جو میں  نے کہا ہے کہ اس کتاب کو کشف المحجوب ( پنہاں کو عیاں کرنے والی ) کے نام سے موسوم کیا ہے،  اس سے میرا مقصد یہ ہے کہ کتاب کا نام ہی اس کے موضوع اور مطالب کو عیاں کر دے اور اہل بصیرت اس کا نام سنتے ہی جان لیں کہ اس میں کیا ہے اور واضح رہے کہ اولیاء اللہ اور عزیز ان بار گاہ خداوندی کے سوا تمام عالم ( و عالمیاں ) رموز و اسرار خداوندی کے حقائق کو سمجھنے سے محجوب و مستور ہیں ۔ چونکہ یہ کتاب سیدھی راہ بتانے اور عارفانہ کلمات کی تشریح و توضیح اور بشریت کے حجاب رفع کرنے کی غرض سے لکھی گئی ہے لہٰذا اسے کسی اور نام سے منسوب کرنا مناسب نہیں سمجھا اور حقیقت یہ ہے کہ جس طرح حجاب کا اٹھنا محجوب (پوشیدہ ) کی موت ہو تا ہے اس طرح حجاب کا آنا  مکاشف (ظاہر شدہ ) کی ہلاکت کا باعث بنتا ہے ۔(کشف المحجوب، طبع تہران، ص 4)۔

حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ کتاب اپنی عمر کے آخری حصے  میں تحریر فرمائی اور اس کا تین چوتھائی حصہ یقیناً لاہور میں لکھا۔ ایک مقام پر داتا حضورؒ فرماتے ہیں کہ اس وقت اس سے زیادہ ممکن نہیں، اس لیے کہ میری کئی کتابیں غزنی ( حرسھا اللہ ) میں رہ گئی ہیں اور میں ہند کے شہر لاہور میں جو مضافات ملتان میں سے ہے ، نا جنسوں  کے درمیان گر فتار ہوں ۔(کشف المحجوب، طبع سمر قند، ص 115)۔

حضرت داتا صاحبؒ نے اپنی کتابوں کے غزنی رہ جانے کا جو ذکر کیا ہے،  اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہیئے کہ ان کے پاس کتابیں بالکل نہیں تھیں بلکہ وہ شاکی اس بات کے ہیں کہ ایک متجر عالم اور فاضل مصنف کو جس بہتات سے کتابوں کی ضرورت ہوتی ہے وہ یہاں پوری نہیں ہو سکتی تھی ۔

پروفیسر خلیق احمد نظامی لکھتے ہیں کہ امام قشیری ؒ کی طرح شیخ ہجویریؒ نے تصوف کو اسلامی شریعت سے قریب لانے اور غلط فہمیوں کو دور کرنے کوشش کی ہے۔  شیخ علی ہجویریؒ کے خیالات میں بڑی صفائی اور انداز بیاں میں بڑی گہرائی ہے ۔ تصوف کی کتابیں ابھی تک عربی میں تھیں اس لیے عوام کو استفادہ کا موقع بہت کم ملتا تھا ۔۔ یہ پہلی کتاب ہے جو فارسی زبان میں لکھی گئی ۔ حقیقی تصوف کو عوام تک پہچانے میں اس کا بڑا حصہ ہے ۔(تاریخ مشائخ چشت، طبع دہلی، باراول 1953، ص98)۔

پروفیسر خلیق احمد نظامی پھر لکھتے ہیں کہ شیخ ہجویری ؒ کی اس کتاب نے ایک طرف تصوف سے متعلق عوام کی غلط فہمیوں کو دور کیا دوسری طرف اس کی ترقی کی راہیں بھی کھول دیں  ۔(تاریخ مشائخ چشت، طبع دہلی، باراول 1953، ص99)۔

پروفیسر خلیق احمد نظامی مزید لکھتے ہیں کہ شیخ ابو سعید ابو الخیرؒ نے اپنی رباعیات ، شیخ عبد اللہ ہر ویؒ نے اپنی مناجات اور شیخ ہجویری ؒ نے اپنی کشف المحجوب کے ذریعے تصوف کے خیالات کو عوام تک پہنچا کر تصوف کے عوامی تحریک بننے اور سلاسل کے منظم  ہونے کا سامان بہم پہنچایا ہے ۔(تاریخ مشائخ چشت، طبع دہلی، باراول 1953، ص102)۔

 

 کشف المحجوب صوفیاء کرام اور مؤرخین کی نظر میں ؛

سلطان المشائخ حضرت نظام الدین محبوب الٰہی دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کی نہایت اہم رائے  ان کے ملفوظات در نظامی (خطی ) مرتبہ شیخ علی محمود جاندار میں درج ہے کہ حضرت خواجہ محبوب الٰہی رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے تھے کہ کشف المحجوب داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ  کی وہ مبارک تصنیف ہے کہ  اگر کسی صاحب کا مرشد نہ ہو تو جب اس کتاب کا مطالعہ کرے گا تو اس کو مرشد مل جائے گا ، میں نے اس کتاب کا مکمل مطالعہ کیا ہے ۔(بحوالہ تصوف اسلام از عبدالماجد دریا آبادی طبع اعظم گڑھ، بار سوئم، ص52)۔

 چنانچہ حلقہ بگو شان حضرت خواجہ محبوب الٰہی رحمۃ اللہ علیہ جن کتب تصوف کےمطالعہ کے شائق تھے ، ان میں کشف المحجوب بھی شامل تھی۔ ضیاء الدین بر نی لکھتےہیں کہ وہ اشراف و اکابر جو خدمت شیخ (یعنی خواجہ نظام الدین اولیاء محبوب الٰہی رحمۃ اللہ علیہ) میں ہر وقت حاضر رہتے تھے ، کتب سلوک کے مطالعہ میں احکام طریقت کے صحیفوں کا مشاہدہ میں رہتے تھے  اور کتاب قوت  القلوب ، احیاء العلوم ، ترجمہ احیاء العلوم ، عوارف المعارف ، کشف المحجوب ، شرح تعرف ، رسالہ قشیری ، مر صاد العباد ، مکتوبات عین القضاۃ، لوائخ اور قاضی حمید الدین نا گوریؒ  کی کتاب لوامع اور فوائد الفواد،  امیر حسن کے شیخ کے ملفوظات کی وجہ سے  خریدار بہت ہو گئے اور لوگ حقائق و سلوک کی کتب کے بارے میں بہت زیادہ پوچھنے لگے ۔(تاریخ فیروز شاہی، برنی، سرسید ایڈیشن، کلکۃ 1862ء، ص346)۔

شہزادہ دارا شکوہ نے لکھا ہے کہ حضرت داتا علی ہجویری  رحمۃ اللہ علیہ کی تصانیف تو بہت ہیں ، مگر کشف المحجوب مشہور و معروف تصنیف ہے اور اس کمال کلام پر کسی کو اعتراض نہیں ہے اور کتب تصوف میں ( کشف المحجوب ) رہنما  کتاب ہے اور اس  خوبی کے ساتھ فارسی میں کوئی کتاب تصنیف نہیں کی گئی ۔(سفینۃ الاولیاء، طبع کانپور، ص 164)۔

 شیخ محمد اکرم براسوی صابری  رحمۃ اللہ علیہ  اپنی مشہور تصنیف” اقتباس الا انوار” جو 1132ھ میں لکھی گئی میں رقم طراز ہیں کہ  صوفیاء کےطبقہ اول میں علوم و اسرار مشائخ ، طالبوں کو رموز و اشارات میں تعلیم کیے جاتے تھے اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کی جاتی تھی اور چند تصانیف بھی ان کی تھیں جنہیں عوام پر ظاہر نہیں کرتے تھے ، مگر طبقہ ثانی میں جب سید الطائفہ جنید بغدادی ، خواجہ ابو لحسن  نوری ، خواجہ ابو سعید خراز اور خواجہ ابو بکر شبلی رحمہم اللہ تعالیٰ کا  دور دورہ ہوا تو انہوں نے رموز و اشارات یعنی اخفا کے طریقہ کو ترک کر کے طالبوں کو ان علوم کا اعلانیہ درس دینا شروع کر دیا ۔ اس وقت سے ہر سلسلہ کے مشائخ نے تصوف پر کتابیں لکھنا شروع کر دیں جن کی تفصیل طوالت کا موجب ہو گی لہٰذا اس موقع پر صرف ان چند معتبر  کتابوں کا ذکر کیا جاتا ہے، جن کا مطالعہ جمیع مشائخ کا معمول ہے ۔ پہلی کتاب جو خانوادہ جنیدیہ میں لکھی گئی “طبقات صوفیہ” تصنیف ابو عبد الرحمٰن سلمی ہے اور ا سکے بعد شیخ علی بن عثمان ہجویری  جنیدی ؒنے کشف المحجوب لکھی ۔(اقتباس الانوار(فارسی) مطبوعہ مطبع اسلامیہ لاہور1895ء، ص29)۔

مفتی سر ور لاہوری مرحوم لکھتے ہیں کہ  شیخ علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ  کی تصانیف بہت زیادہ ہیں ، پر کشف المحجوب کا شمار آپ کی مشہور ترین کتب میں ہوتا ہے اور اس پر کسی کو لب کشائی کی جرأت نہیں بلکہ  فارسی میں تصوف پر  کشف المحجوب سے پہلے کوئی کتاب تصنیف نہیں ہوئی ۔(خزینۃ الاصفیاء، طبع لکھنو، جلد دوم، ص 232)۔

 محمد بن عبد الوہاب قزوینی (ایران ) مقدمہ” تذکرۃ الاولیاء” میں رقم طراز ہیں  کہ میری نظر میں فارسی زبان میں تذکرۃ اولیاء  سے پہلے دو کتابیں لکھی گئی ہیں،  ایک شیخ ابو الحسن علی بن عثمان جلابی ہجویری غزنوی  رحمۃ اللہ علیہ کی تالیف کشف المحجوب  ہے اور دوسری ترجمہ طبقات الصوفیہ عبد الرحمٰن سلمی کی جس کو شیخ الاسلام  ابو اسماعیل عبد اللہ بن محمد الانصاری الخزرجی( المتوفی  481ھ ) مجالس وعظ و نصیحت میں املا کراتے تھے ۔(مقدمہ تذکرۃ الاولیاء، طبع تہران سوم، ص8)۔

 

داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کے ارشادات عالیہ؛

اللہ تعالیٰ کے محبوب بندوں کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ عوام الناس اور طالبان حق و صداقت کے لیے مشعل راہ ہوتے ہیں، کیونکہ یہ کلمات علم و حکمت اور معرفت سے بھرپور ہوتے ہیں۔ داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندے اور محبوب اولیاء کرام میں سے ہیں تو آپ کی زبان اقدس سے نکلے ہوئے کلمات بھی امت کے لیے نہایت قیمتی سرمایہ ہیں۔ داتا حضورؒ کے چند ارشادات درج ذیل ہیں؛

دس چیزیں، دس چیزوں کو کھاجاتی ہیں؛ توبہ گناہ کو، جھوٹ رزق کو، غیبت عمل کو، غم عمر کو، صدقہ بلا کو، غصہ عقل کو، پشیمانی سخاوت کو، تکبر علم کو ، نیکی بدی کو اورعدل ظلم کو۔

غافل امراء، کاہل فقراء اور جاہل درویشوں کی صحبت سے پرہیز بھی عبادت میں شامل ہے۔

عارف کامل کے لیے عالم ہونا ضروری ہے اور ہر عالم عارف نہیں ہوتا۔

جب فقیر کو بادشاہ کا قرب حاصل ہوجاتا ہے تو اس کا سامان سفر اور توشہ آخرت برباد ہوجاتا ہے۔

نفس کی مثال شیطان کی ہے اور اس کی مخالفت عبادت کا کمال ہے۔

کامل صوفی وہ ہے جس کی گفتار و کردار میں فرق نہ ہو اور جو اخلاق کی تہذیب کا کام کرے۔

کامل صوفی وہ ہے جس کے ایک ہاتھ میں قرآن کریم اور دوسرے میں سنت رسول اللہﷺ ہو۔

اولیاء اللہ رب تعالیٰ کے ملک کے والی اور منتظم ہیں۔

جس کام میں نفسانی غرض آجائے، اس سے برکت اٹھ جاتی ہے۔

جو چیز بندے کو رب تعالیٰ سے دور کردے وہ عزت نہیں بدترین قسم کی ذلت ہے۔

 

منقبت بحضور داتا گنج بخشؒ؛

 

گنج بخش فض  عالم مظہرِ نور خدا
ناقصاں راپر  کامل کاملاں را راہنما

ہو رقم کس سے تمہارا مرتبہ یا گنج بخش
ہیں ثناء خواں آپ کے شاہ وگدا یا گنج بخش

بحر غم میں ہوتی ہے زیروزبر کشتی میری
لو خبر بحرِ محمد مصطفی یا گنج بخش

مہربان ہو کر ہماری مشکلیں آساں کرو
صدقہ حضرت علی مرتضیٰ یا گنج بخش

ازپئے خواجہ حسن بصری مجھے ہونے نہ دو
پھندہ حرص وہوا میں مبتلا یا گنج بخش

از برائے طاعت حضرت حبیب عجمی کرو
نور ایماں سے منور دل مرا یا گنج بخش

حضرت داؤد طائی پیر کامل کے طفیل
کیجیے سب حاجتیں سب کی روا یا گنج بخش

از پئے معروف کرخی خواب میں آکر مجھے
چہرہ انور دکھا دو بر ملا یا گنج بخش

از برائے سری سقطی رہے لب پر میرے
اسم اعظم آپ کا جاری سدا یا گنج بخش

ازپئے الطاف وتکریم وفیوضیات جنید
ہو ہمارے حال پر نظر عطا یا گنج بخش

از برائے حضرت ابوبکر شبلی نامدار
ہو ہمارے دل کا حاصل مدعا یا گنج بخش

از پئے حضرت علی حسری مجھے کردو رہا
ہوں گرفتار غم ورنج وبلا یا گنج بخش

از برائے ابوالفضل ختلی رہے جلوہ نما
ہر گھڑی دل میں  تصور آپ کا یا گنج بخش

یا علی مخدوم ہجویری برائے ذات خویش
غیر کا ہونے نہ دو ہم کو گدا یا گنج بخش

جب نظر لطف وکرم کی شیخ ہندی پر پڑی
کردیا قطرے سے دریا آپ نے یا گنج بخش

حضرت خواجہ معین الدین بابا فرید الدین کو
گنج عرفاں آپ کے در سے ملا یا گنج بخش

آپ کے دربار میں آکر کیا جس نے سوال
آپ نے بخشا اس کو گنج بے بہا یا گنج بخش

اس بشر کے ہوگئے فوراً سبھی مطلب روا
صدق سے اک مرتبہ جس نے کہا یا گنج بخش

کس کے در پر یہ ظہور الدین کرے جاکر سوال
آپ کے دربار عالی کے سوا یا گنج بخش

گنج بخشی آپ کی مشہور ہم پہ کر کرم
کر کرم کرواکرم دونوں جہاں میں رکھ شرم

گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا
ناقصاں را پیر کامل کاملاں را رہنما

 

 

2 Minutes Read

گھر بیٹھے پیسے کمائیں

How can I earn money online in Pakistan?

Umrah How to Perform? | A Step by Step Guide

How Hajj is Performed? | A Step by Step Guide

17 best way to earn money online in Pakistan and make 100$ Per day without any investment

How can I earn money online in Pakistan? 10 best websites for online earning

How to earn online money in Pakistan | 12 best ways how to earn money online in Pakistan

Beautiful Places in Pakistan | 10 Must visit Spots in 2022

 

aalijaaproductions